بوری کی لاش

 

 

ایک حقیقت ایک فسانہ

 

 

 

 

 

اشفاق احمد خان


                                    ۱                                                                                  

پلین کے زمین پر ٹکتے ہی ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئ،  کھڑکی سے باہر دیکھا تو تیزی سےپیچھے کی طرف  دوڑتی ہوئ عمارتیں نظر آنے لگیں، اب مجھے افسوس ہو رہا تھا  کہ کیوں میں نے سو کر وقت گزار دیا ۔  فضاوں کی بلندی سے شہر دیکھنا چاہ رہا تھا  مگر وقت گزر چکا تھا۔ تھوڑی دور تک ٹیکسی کرتا ہوا پلین ٹرمینل پر آکر رک گیا۔کچھ ہی دیر بعد  آہستہ آہستہ لوگ اترنے لگے اور تقریباً سترا سال کے بعد میں نے اس زمین پر قدم رکھ دیا جہاں میرا سارا ماضی آباد تھا۔ ایئر پورٹ کی عمارت بہت کچھ بدل چکی تھی اور اب سیڑھیوں سے اترنا بھی نہیں پڑا تھا۔ امیگریشن تک پہنچنے میں ذیادہ دیر نہیں لگی ، مجھ پر ایک سراپا نظر ڈال کر امیگرشن آفیسر نے میرے پاسپورٹ  پر ٹھپہ لگادیا اور میں ایک سکون کا سانس لیتا ہوا باہرلگیج روم پر  آگیا۔یہاں آکر چاروں طرف نظریں ڈالیں۔ باہر لوگوں کا ایک  مجمع تھا جو اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے پہلے ہی سے اپنے لئےہوٹل  اور ڈرائیور کا بندوبست کروالیا تھا اس لئے مجھے کسی کا انتظار نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد سامان آنا شروع ہو گیا ۔ کنوئر پر سامان چلتا رہا اور میں بے چینی سے اپنے سوٹ کیس کا انتظار کرتا رہا۔ ایک عجیب سی گھبراہٹ طاری تھی ، سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں کیسے کٹے گا  یہاں پر وقت۔ مجھے یہاں آنے کی کوئ خاص ضرورت تو نہیں تھی صرف ایک خلش تھی جس کو دور کرنا چاہ رہا تھا۔ایک ادھورا کام تھا جس کو میں نے چھوڑ دیا تھا۔صوبی سے میری ملاقات صرف اس حد تک ہی تھی کہ ہم ایک کلاس میں تھے اور  میں کبھی کبھی  کسی بہانے اس سے سوالات پوچھ لیتا تھا۔مگر شاید اس کو پتہ چل گیا تھا کہ میں اسے بہانے بہانے سے ڈھونڈ کر قریب دیکھنا چاہتا تھا۔کچھ ہم نے ٹیبل ٹینس کے گیم بھی ساتھ کھیلے تھے۔مگر  ڈرتا بھی تھا کہ کہیں لوگ مجھے پاگل نہ سمجھیں کہ یہ ہر وقت ٹکٹکی باندھے اس لڑکی کو کیوں دیکھتا ہے۔میرا وحشیانہ پن صرف مجھ تک ہی محدود تھا۔ مجھے اتنا بھی معلوم تھا کہ میری ناکامیوں کی لسٹ اتنی لمبی ہے کہ کوئ لڑکی مجھ پر صرف رحم ہی کھا سکتی ہے محبت نہیں کر سکتی،اس لئے کبھی بات بڑھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔مگر  اتنا ضرور تہیا کر لیا تھا کہ کسی نا کسی دن میں اپنی محبت واپس لونگا۔ اس کو جتا دونگا کہ اس دنیا میں مجھ سے بہتر اس کے ليے کوئ اورنہیں۔ مگر یہ سب خیالی پلاؤ ہی بن کر رہ گئے۔کوشش کرکے میں امریکا تو آگیا مگر  غم دوران نے اتنا دماغ کو کند کردیا کہ وقت کا کچھ احساس ہی نہیں رہا۔ یادوں کے کونوں  میں جب چبھن زیادہ ہوتی تو سب  کچھ چھوڑ چھاڑ آنے کی کوشش میں لگ جاتا مگر پھر وقت کا مرہم لگتےہی دوبارہ  سارے احساس سو جاتے۔ اسی کشمکش میں سترا سال کزر گئے مگر اس دفعہ کسی مرحم نے کام نہیں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کو شاید معلوم بھی نہ ہو، اب میرا وجود اس دنیا ہے  بھی یا نہیں،  اپنی قسمت پھر سے آزمانے کے لئے میں یہاں پر موجود تھا۔اب یہ مسلہ کس طرح حل ہوگا اس کا مجھے کوئ اندازہ نہیں تھا۔ لوگ کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے تو پھر یہ ایک نازک سی ہستی ہے، ڈھونڈنے میں ایسی کیا مشکل پیش آسکتی ہے۔ میرے دماغ نے اس چیز کو ایک چیلنج کے طور پہ لے لیا تھا اور میں اپنے دماغ سے مطمعین تھا کہ میرا دماغ یہ مسلہ   حل کرلے گا۔

تھوڑی ہی دیر میں مجھے میرا سوٹ کیس نظر آگیا۔ اس کو اٹھا کر باہر آتے ہی مجھ پر دو قلی ٹوٹ پڑے۔ ایک نے میرا سوٹ کیس سر پر اٹھا لیا اور دوسرا بیگ چھین کر بھاگنے لگا۔

"صاب وہ رہی آپکی ٹیکسی" یہ کہتے رہے اور بھاگتے رہے۔

میں نے ان کے پیچھے ایک دوڑ لگائ اور بھاگ کر بیک والے کو پکڑ لیا۔

"یہ کیا کر رہے ہو تم۔" میں نے غصہ سے اپنا بیگ واپس چھین کر اس پر دھاڑ ماری۔

"صاحب وہ ٹیکسی کھڑی ہے۔"

"نہیں بیٹھنا ہے مجھے ٹیکسی میں۔" یہ کہہ کر میں نے اپنا سوٹ کیس دوسرے کے سر پر سے کھینچ کیا۔ قلی شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ توازن کھوتے ہی وہ لڑکھڑا کر نیچے گر پڑا۔  اپنا سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر دونوں کو زور کی ڈانٹ پلائ، یہ دیکھ کر دوسرے قلی بھی دور ہٹ گئے۔ادھر ادھر دیکھا تو ایسا کوئ نقشہ نہیں تھا کہ میرے انتظار میں کوئ ڈرائیور ہو، جھنجلا کر میں نے ہوٹل کا فون نمبر نکا لا  اور  قریب کے فون  سے ہوٹل کا نمبر ملایا۔

"میرا نام صفدر ہے اور میں توقع کر رہا تھا کہ کوئ ایئر پورٹ پر موجود ہوگا مجھے لینے کے لئے۔" زرا ترش لہجے میں میں نے آپریٹر سے بات کی۔

"آپ صفدر صاحب امریکا سے جو آے ہیں۔"

"جی ہاں" اسی ترش لہجے میں میں نے جواب دیا۔

"صاحب آپ کے لئے ہم نے لموزین بھجادی ہے اور ڈرائیور آپ کا انتظار کر رہا ہو گا۔"

"کہاں۔"

"آپ کو لموزین اسٹینڈ پر دیکھنا پڑےگا۔"

یہ سن کرمیں نے  فون رکھ دیا اور قریب کھڑے سپاہی سے اسٹینڈ کا پوچھنے لگا۔

"وہ رہا۔" اگر قلی میرا سامان نہیں لے جا رہے ہو تے تو اسٹینڈ سامنے ہی تھا۔

اسٹینڈ پر  ایک ڈرائیور اپنے ہاتھ میں ایک کارڈ لئے کھڑا نظر آیا ۔ قریب جا کر دیکھا تو میرا ہی  نام تھا۔ مجھے قریب دیکھتے ہی ڈرائیور نے پوچھا "آپ صفدر صاحب۔"

"ہاں۔"

یہ سنتے ہی اس نے میرے ہاتھ سے بیک اور سوٹ لیس لے  لیا اور میرے واسطے دروازہ کھول دیا۔

لموزین کافی کشادہ تھی اور ایئر کنٰڈیشن کی وجہ سے اب مجھے سکون آگیا تھا۔

ٹرنک میں سامان رکھ کر ڈرائور سیٹ پر آ کربیٹھ گیا۔

"صاب آپ کو دقت تو نہیں ہوئ؟"  اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوے مجھ سے پوچھا۔

"دقت تو نہیں ہوتی اگر دو الو کے پٹھے میرا سوٹ کیس لے کر نہیں بھاگ رہے ہوتے۔"

"ہاں جی یہاں پر قلیوں نے بہت اودھم مچایا ہوا ہے۔ہر ایک کو تنگ کرتے ہیں اور چینا جھپٹی کرتے ہیں۔"

یہ کہہ  کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم ايئر پورٹ سے باہر آنے لگے۔

سترا سال کے بعد پہلی دفعہ میں یہاں قدم رکھ رہا تھا مگر  ایسے لگا جیسے میں کچھ دنوں پہلے ہی یہاں سے گزرا تھا۔ معلوم نہیں کہ زہن نے کس طرح اس جگہ کو ایک تصویر کی طرح محفوظ کرلیا تھا۔میں بتا سکتا تھا کہ کون سی عمارت نيی ہے اور کونسی پرانی۔ٹیکسی دوڑتی رہی اور میں شیشے سے باہر کی  دنیا دیکھتا رہا۔خاموشی سے فاصلہ کٹ رہا تھا کہ   ڈرائور نے خاموشی توڑتے ہوئے  سوال کیا،

"آپ امریکا میں کس جگہ رہتے ہیں ؟"

"شکاگو میں" میں نے ایک مختصر جواب دے دیا۔

"کتنے سال بعد آئے ہیں ؟" جستجو کے لئے اس نے ایک اور سوال کیا۔

"سترا سال بعد۔"

"سترا سال کے بعد۔" یہ سن کر ڈرائور حیران رہ گیا۔

"ہاں، وقت کچھ ایسا ہی کٹتا ہے وہاں۔"

"کبھی آپ کو یاد نہیں آئ یہاں کی؟"

"آئ بھی ہوتی تو میں  کچھ نہیں کر سکتا تھا۔" یہ سن کر وہ چپ ہو گیا۔

راستہ گزرتا رہا اور میں زہن کے دریچوں سے وہ منظر ملانے لگا جو ماصی کی تہوں میں چھپے ہوے تھے۔زندگی میں پہلی بار وقت ملا  تھا کہ اپنے بارے میں سوچ سکوں اس لئے یہاں چلا آیا۔ سوچ لیا تھا کہ ایک مہینے  تک نہ میں اپنے کام کے بارے میں سوچونگا اور نہ فکر کرونگا، یہ پورے مہینہ میں اس کو ڈھونڈنے میں گزارونگا، میرے خیال میں ایک مہینہ کافی تھا ، اس جانے پہچانے شہر میں کسی کو ڈھونڈنا اتنا مشکل بھی نہیں ہونا چاہیے یہ سوچ کر اطمینان سے اپنا سر سیٹ پر ٹکا لیا۔تھوڑی ہی دیر میں ہم  ہوٹل پہنچ گئے۔

 کاونٹر پر  زیادہ رش نہیں تھا۔میری باری آنے پر میں نے اپنا  کریڈٹ کارڈ نکال کر کاؤنٹر پر رکھ دیا۔

" میرا نام صفدر ہے اور میری ایڈوانس بکنگ ہے۔"

"جی ہاں ہم آپ ہی کا انتظار کر رہے تھے،" یہ کہہ کر اس نے ایک فارم مجھے دے دیا۔

"بس اس پر دستخط کردیں۔یہ آپ کا کمرہ نمبر ہے اور یہ آپ کی چابی ہے"

"رینٹا کار کہاں سے ملے گی؟" میں نے اپنے ہاتھ میں چابی لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"ہوٹل کے باہر جو آفس ہیں ، تیسرا آفس رینٹا کار کا ہے۔"

"شکریہ۔" یہ کہہ کر  اوپر کمرے میں آگیا۔صاف ستھرا کمرہ تھا اور اے سی چل رہا تھا۔ ٹی وی کو آن کرنے پر خبریں شروع ہو گئیں۔میری خواہش کے مطابق ہی کمرہ تھا، میں نے سوچ لیا کہ ایک مہینہ یہاں آرام سے گزر جائے گا۔

، پلین  میں خوب سو چکا تھا اس ليے مجھے زرا بھی تھکن نہیں تھی۔پھر بھی تھوڑی دیر  کے لئے لیٹ گیا۔ نیند کا کہیں نام نہیں تھا،  سوچا کہ  شاور لینا چاہئے۔  نہا نے  کے بعد   اب میں اور بھی تازہ دم ہو چکا تھا، سوچا کہ اب اپنا مشن شروع کر دینا چاہئے۔

کپڑے بدل کر  کمرے سے باہر آگیا۔

اب مجھے ایک  رینٹا کار کی ضرورت تھی۔

ہوٹل کے باہر آتے ہی مجھے رینٹا کار کا  آفس نظر آگیا۔

آفس میں داخل ہونے پر دیکھا کہ  صرف میں ہی ایک کسٹمر تھا، مجھے کار لینے میں زیادہ  دیر نہیں لگی ۔

"یہ آپ کی چابی ہے، سیدھے ہاتھ پر  گیراج ہے ، اٹینڈنٹ کو آپ یہ  چابی دے دیں، آپ کو گاڑی مل جائے گی۔ " کلرک  نے چابی میرے ہاتھ میں دیتے ہوے کہا۔

چابی  اٹھا کر  گیراج سے گاڑی اٹھائ اور سڑک پر آگیا۔

دن شروع ہو چکا تھا اور گرمی کی شدت بڑھ چکی تھی۔میرے زہن میں صوبی کی گلی کا نقشہ اس طرح نقش تھا جیسے کسی پتھر سے کھرید کر بنایا گیا ہو،حالانکہ زندگی میں صرف ایک دفعہ اس کا پیچھا کیا تھا گھر دیکھنے کے لئے، لیکن میں آنکھ بند کرکے بھی اس کے  گھر تک  پہنچ سکتا تھا۔ اندازہ کے مطابق گلی تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی،جیسے ہی گلی کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ یہاں کا نقشہ ہی بدلہ ہوا ہے، نہ وہ مکانات تھے اور نہ ہی وہ سنگ میل۔ بہت سٹپٹایا،  پھر میں نے سوچا کہ شاید گلیاں گننے میں غلطی ہو گئ ہوگی اس لئے  گلی کا ایک چکر لگانے کے بعد دوبارہ چورنگی پر آگیا اور پھر سے گلیاں گننی شروع کردیں،نقشہ کے مطابق میں دوبارہ اسی گلی میں موجود تھا۔پیلی بالکونی کا کٹاؤ جو کہ میری نشانی تھا اس کا دور دور پتہ نہیں تھا۔وہاں پر تو اب ایک  عجیب بے ڈھنگا سا مکان بنا ہوا تھا، پھر بھی  گلی میں داخل ہو کر تھوڑے فاصلے پر میں نے گاڑی روکی اور اتر کر انجن کا بونٹ اٹھا دیا ایسے ہی جیسے انجن میں کچھ خرابی ہو گئ ہو۔ تھوڑی دیر تک تو  سر جھکائے انجن کو دیکھتا رہا لیکن میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ شاید کوئ کسی گھر سے باہر نکلے تو بات کروں ۔ایک لڑکا دور کھڑا مجھے گھور رہا تھا پھر وہ بھی چلا گیا، میری خود کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کسی کے   گھرکا گیٹ کھٹکھٹاؤں۔ اچانک  زہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ ٹیلیفون کیا جائے، یہ سوچ کر میں نے بونٹ واپس بٹھایا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے چورنگی پر واپس آگیا۔

سامنے ہی ایک ریسٹورانٹ تھا سوچا کہ یہاں پر چائے بھی پی لونگا اور ٹیلیفون بھی کر لونگا۔ ریسٹورانٹ میں داخل ہوتے ہی ایر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے دماغ کو زرا سکون دیا اور ایک کرسی پر بیٹھ کر میں نے ویٹر کو چائے کا آرڈر دے دیا۔

"اور کیا تمہارے پاس ٹیلیفون ڈائرکٹری ہے؟"

"صاب سے پوچھیں۔" اس نے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

 کاؤنٹر پر آکر  میں نے مالک سے ٹیلیفون کی ڈائرکٹری کی درخواست کی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر نیچے سے  ڈائرکٹری اٹھائ اور میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں دوبارہ اپنی ٹیبل پر آگیااور چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے ڈائرکٹری کے ورق پلٹنے لگا۔ورق پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا مگر اس نام کا کہیں پتہ نہیں تھا۔چائے ختم ہوگئ مگر  کہیں نام نہیں ملا۔اب مجھے جھنجلاہٹ سی ہونے لگی کہ اس کا نام کیوں نہیں ہے۔ کیا اس نے اپنا نام  بدل دیا ؟ ہوسکتا ہے اس نے شادی کرلی ہو، زہن میں ایک بجلی سی چمکی۔ ایسا ہو نہیں سکتا، ایسا کبھی نہیں ہوگا،میں نے پھر دوبارہ ڈائرکٹری کے ورقعے پلٹے مگر لا حاصل ، کہیں نام نہیں تھا۔ضرور اس کی شادی ہوگئ ہوگی،ایسا ہو بھی سکتا ہےمگر ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔اب مجھے عورتوں کی اس حرکت پر بڑا غصہ آرہا تھا کہ شادی کے بعد یہ اپنا نام بدل لیتی ہیں، مجھے اتنی دقت پیش آرہی تھی نام ڈھونڈنے میں۔ میرا زہن اس چیز کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔زہن میں اب عجیب  عجیب سے  وحم آنے لگے،ایسا ہوا تو کیوں ہوا ، مگر اس نے شادی کری کیوں؟ میرے دماغ کی پھرکی اب  گھوم چکی تھی۔ کیا وہ میرا انتظار نہیں کر سکتی تھی، اس کو معلوم ہو نا چاہیے تھا کہ میں آنے والا ہوں۔ کرلی ہوگی اس نے کسی بدصورت سے شادی۔ اب میرا یہاں پر بیٹھنا فضول ہے، غصہ میں میں نے ڈائرکٹری کاؤنٹر پر پٹخی اور چائے کے پیسے دے کر باہر آگیا۔

 دماغ  اب پوری طرح گھوم چکا تھا، رہ رہ کے  اس کے بدصورت شوہر کی تصویر زہن میں آنے لگی۔ اس کی ایسے ہمت کیسے ہوئ۔یہ سوچتے ہوئے  تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا گاڑی کی طرف آنے لگا کہ اتنے میں راستے میں پڑا ایک مریل سا کتا نظر آیا یا پھر اس کے شوہر کی شبیہ تھی۔ زہن میرا کنٹرول کھو چکا تھا اور میں نے آگے بڑھ کر ایک زور کی لات کتے کوماری، بلبلاتا ہا وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اچانک مجھے اپنے پاگل پن کا احساس ہونے لگا اور اس سے پیشتر کے کوئ مجھے پاگل خانے پہنچاتا میں نے فوراً گا ڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے گاڑی سڑک پر لے آیا۔ تھوڑی دیر تک سڑکوں پر بے مقصد گا ڑی چلاتا رہا، پھر سوچا کہ ہوٹل واپس چلنا چاہئے اور کوئ نیی پلاننگ کرنی  چاہئے۔  

ہوٹل واپس آکر تھوڑی دیر کے لئے میں لیٹ گیا۔ میرے دماغ کو اب سکون آچکا تھا  اور میں نيی پلاننگ کے بارے میں سوچنے لگا ۔ زہن بار بار اسی مکان کی طرف جا رہا تھا، مجھے چاہئے تھا کہ گیٹ کے باہر ہی  انتظار کرتا، کوئ نہ کوئ  کبھی نہ کبھی تو  مکان سے نکلے گا یا داخل ہوگا۔ یہ سوچ کر  فوراً اٹھ کھزا ہوا اور دوبارہ گیراج سے گاڑی نکال لی اور تھوڑی ہی دیر میں گلی تک آگیا۔ گلی میں داخل ہوکر  معمول کے مطابق  میں نے گیٹ کے آگے گاڑی کھڑی کی اور بونٹ اٹھا دیا، اور اسی طرح انجن کو دیکھنے لگا جیسے کوئ خرابی ہو گئ ہو۔اتنے میں  وہی صبح والا لڑکا قریب سے گزرا۔

"یہ آپ کی گاڑی  صبح بھی یہیں خراب ہوئ تھی اور اب بھی، یہ کیا معاملہ ہے؟"

پلٹ کے میں نے اس کو گھور کر دیکھا، چار فٹ کا قد تھا اور محلے کا دادا بنا ہوا تھا۔

"بھاگ جا سے یاں سے، بڑا آیا چوکیدار۔" ایک زور کی  اس کو ڈانٹ پلائ۔ یہ سنتے ہی وہ بوکھلا کر بھاگ کھڑا ہوا  مگر دور جا کر پھر اس نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچ لیا کہ زیادہ دیر یہاں گاڑی خراب کروانا صحیح نہیں۔جی کڑا کرکے گيٹ کھٹکھٹانے کا ارادہ کر ہی لیا۔کھٹکھٹانے کے تھوڑی ہی دیر بعد آنکھ ملتا ہوا ایک میلی سی شلوار قمیص پہنے  ایک منہنی سا لڑکا باہر نکلا۔

"گھر میں کوئ ہے؟" میں نے اس کے دیکھتے ہی سوال کر دیا۔

"جی گھر میں تو کوئ بھی نہیں ہے۔" اس نے سوئ ہوی آواز میں جواب دیا۔

میں سمجھ گیا کہ یہ یہاں کا ملازم ہے۔

"کب تک آیں کے گھر والے؟"

"کچھ پتہ نہیں۔"

اس کے اس جواب سے پتہ چل گیا کہ معاملہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔ اب مجھے کچھ اور ترکیب  لگا نی پڑے گی۔

یہ سوچ کر   گاڑی تک واپس آگیا اور بونٹ  داپس رکھ کر  گاڑی اسٹارٹ  کی اور  گلی سے نکل آیا۔

ابھی تو بہت وقت ہے اور ایسی بےچینی بھی کیا، کوئ نہ کوئ راستہ تو نکل ہی آئے گا۔یہ سوچتا رہا اور بلا مقصد سڑکوں پر گا ڑی چلاتا رہا۔اس شہر میں میرا بچپن تھا اور میری جوانی تھی، وہی گلیاں تھیں اور وہی مکانات تھے۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنے ماضی میں گم ہوگیا، سوچتا رہا کس طرح ان گلیوں نے مجھے اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا۔ میری نظریں دایں اور بایں بھٹک رہی تھیں، اور میں ان عمارتوں کو پہچاننے کی کوشش کررہاتھا جن کو برص ہا برص دیکھتے ہوے میں بچپن سے جوان ہوا تھا، ان میں سے کئیوں کے رنگ اڑ چکے تھے ،  مجھے زرا برا سا محسوس  ہوا،  ایسے لگا جیسے میں نےکوئ عزیز چیز دی اور ان لوگوں نے  کوئ قدر نہیں کی۔ ہر گزرتی ہوئ بالکونی پر میری نظریں ایسے ٹھہریں کہ جیسے شاید کوئ جانا پہچانا چہرہ نظر آجاے، یہ جانتے ہوے بھی کہ کتنا احمقانہ خیال ہے میں  ہر چہرے کو  گھوررہا تھا ۔ یوں ہی خیالوں  میں گم راستہ کٹنے لگا۔

 

جی بھر کے شہر کا چکر لگانے کے بعد سوچا کہ اپنا پرانا محلہ بھی دیکھ لوں۔ان لوگوں سے بھی ملنا ضروری تھا۔ان دوستوں کو  بھول تو سکتا نہیں تھا جو  میرے اچھے  اور برے وقت کے ساتھی تھے، یہ وہ لوگ تھے جن کے ساتھ دل کھول کر قہقہے لگائے تھے اور جب وقت پڑا تو ہر کام میں ایسی ہی مدد کرتے جیسے اپنی ذات کے ليے کرر ہے ہوں۔

 

یوں ہی گاڑی چلاتا ہوا اپنے پرانے محلے تک آگیا اور اپنی گلی کے کونے میں کھمبے کے پاس  روک کر گاڑی کھڑی کر دی اور پھر گاڑی سے اتر کر گلی کے مکانوں کو دیکھنا شروع کردیا، آہستہ آہستہ ذہن میں ہر مکان کا نقشہ اس طرح آنے لگا جس طرح  چھوڑ کر گیا تھا۔   دیکھا کہ لوگوں نے دو سے چار منزلہ مکانات  تو کر ليئے تھے مگر ڈھانچہ وہی تھا۔  ہر مکان کومیں    آسانی سے پہچان سکتا تھا، میں نے دور سے اپنے پرانے مکان کو دیکھا، الطاف صاحب کے گھر کی نچلی منزل کا حصہ  ہم  نے کرائے پر لیا ہوا تھا، انہوں نے مکان میں زیادہ تبدیلی نہیں کی تھی، اس وقت بھی ان کا مکان تین منزلہ تھا اور دو نیچے کے مکانات کو کرایہ پر اٹھا کر خود مزے سے اوپر رہتے تھے۔اس مکان کے برابر میں زبیر کا مکان تھا،زبیر کا مکان سب سے نمایاں تھا، اس کے باپ نے دو پلاٹ ملا کر کا فی بڑا مکان بنوایا تھا، زبیر ہم سے الگ تھلگ ہی رہتا تھا، اس کے باپ نے اس کی پڑھائ پر کافی توجہ دی ہوئ تھی اس لئے اس کو اجازت نہیں تھی کہ محلے کے مجھ جیسے  لڑکوں کے ساتھ زیادہ اٹھے بیٹھے۔

 

زبیر کے مکان کے سامنے نجمہ لوگوں کا مکان تھا، اور میں اس گیلری کو دیکھ رہا تھا جس پر سے مجھ پر خربوزہ کے چھلکے پھینکے گئے تھے اور جب مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ یہ نجمہ کی حرکت ہے تو میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر میری اس سے شادی ہوجائے تو  اس پر اتنا ظلم کرونگا کہ اس کی چیخیں نکل جائیں گی  حالانکہ وہ اور اس کی والدہ نے گھر پر آکر بہت معافیاں مانگی تھیں مگر کئ دنوں تک میرا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ لوگ اب ہیں بھی یا نہیں۔ پھر کبیر کا مکان تھا ، مجھے اس سے ملنا ضروری تھا، وہ نجانے کیوں ہر وقت دوستی کا بھرم رکھنا چاہتا تھا، کوئ بھی کام کہو ہر وقت مددکے لئے تیار، اس کو استعمال کرنا بڑا آسان ہوتا تھا ،  کمزور سے بدن کا اور شاید اس کو ٹی بی ہو چکی تھی۔اس نے کچھ غزلیں بھی لکھی تھیں جن کا ہم بڑا مذاق اڑاتے تھے۔مجھے  اب یاد آرہا تھا کہ کس طرح اس نے میری جعلی آئ ٹوئنٹی بنوانے میں مدد کی تھی، شاید ہی کوئ دکان ہو جسکا ٹائپ رائٹر اس نے چیک نہ کیا ہو۔ ہمیں وہ ٹائپ رائٹر دیکھنا تھا جس کے زریعے ہم آئ ٹوئنٹی پر نام بدل سکتے۔ اگر اس نے اس وقت میری مدد نہ کی ہوتی تو میں آج  شاید یہیں جوتیاں چٹخارہ ہوتا  یا پھر جوتیوں پر پالش کررہا ہوتا۔اب میرے زہن میں اس کے وہ الفاظ گونج رہے تھے  جب آخری دن وہ مجھے ايئر پورٹ چھوڑنے آیا تھا اور میرے کانوں میں چپ  کےسے کہا تھا، مجھے بھی ضرور بلا لینا ۔ مگر کیسے وقت نے میرے زہن سے وہ سب بھلا دیا، یا پھر میں اپنی نیچر کا خود غرض تھا، یہ سوچ کر مجھے تھوڑی شرمندگی سی ہوئ اور میں نے اس کے گھر سے اپنی نظریں چرا لیں۔ پھر سلیمان  صاحب کا مکان تھا وہ کسی کپڑے کی مل میں کام کرتے تھے، بے چارے صبح ہی کام پر جاتے اور رات گئے آتے۔پھر وصیم کا گھر تھا جس کا کام ہی یہ ہوتا تھا کہ دوسرے محلے کے لڑکوں سے لڑائ جھگڑا  کرنا ، اگر وہ پٹ کر آجائے تو ہم سب کو لے کر جاتا اور عموماً ہم سب پٹ کر آتے تھے۔ گلی کے کونے دالا مکان سلیم کا تھا، اس کے باپ نے کچھ دکانیں نکلواي تھیں جن سے آمدنی بھی ہوتی تھی اور ایک دکان پر وہ خود بیٹھتے تھے۔

 

 یہ وہ لوگ تھے جو زرا خوشحال تھے، باقی لوگوں نے اپنے بچوں کو یا تو تندور پر بھجوایا ہوتا تھا یا کھڈی پر۔ یہ بچے بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے تھے پھر تھک ہار کر سو جاتے تھے۔ ان بچوں کے پاس فضولیات کے لئے ٹائم ہی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی وہ ہمارے ساتھ کھیل کود میں شامل ہوتے تھے۔ایک  چچا نے اپنے بھتیجے کے پیر میں بیڑی ڈال کر دس فیٹ کی زنجیر دے دی تھی۔ اس کی پوری دنیا کا احاطہ صرف ایک دس فیٹ کا گھیرا تھا۔ پتہ نہیں کس طرح اس نے اس زنجیر سے نجات پائ ہوگی۔ لوگ آتے جاتے اس کو دیکھتے لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اس کو پوچھتے کہ اس کے پیر میں  زنجیر کیوں بندھی ہے اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں کھیلتا۔ شاید کچھ لوگ دنیا میں صرف عبرت کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں ۔

ان گھروں کو دیکھ  کر وہ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں جب  دماغ کا خمار کچھ حد سے زیادہ ہی بڑھا ہوا تھا، دنیا کو فتح کرنا تو ایک معمولی سی چیز تھی دنیاوں کو بنانے کی سوچتا تھا۔میں ہی نہیں اس گلی کا تقریباً ہر لڑکا ہی ایسے سوچتا تھا سوائے سلیم کے۔ صرف وہ ہی تھا جو کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند تھا ۔اس کا اصول تھا آپ سے آئے تو ٹھیک ہے ورنہ بھاڑ میں جائے، اس نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ وہ بڑے ہو کر اپنے باپ کی دکان سنبھالے گا، اس کو زیادہ جھمیلوں میں پڑنا ہی نہیں  تھا، مجھے یقین تھا کہ کوئ ملے نہ ملے سلیم ضرور موجود ہو گا،

یہ سوچ کر میں سلیم کے باپ کی دکان پر پہنچ گیا۔دکان کے سامنے پہنچ کر دیکھا کہ کائنٹر کے پیچھے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اخبار پڑھ رہا ہے، قریب پہنچنے پر اس نے اخبار سے نظریں ہٹائں۔

"سلیم؟" میں نے کچھ جانے پہچانے انداز میں اس کا نام پکارا۔

تھوڑی دیر تک تو وہ مجھے غور سے دیکھتا رہا، شايد پہچاننے کی کوشش کررہاتھا، پھر اخبا ر رکھ دکان سے باہر آگیا۔

"صفدر تم؟" اس نے بے اختیار مجھے اپنے گلے سے لگالیا۔بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پا کر   اس کو الگ کیا۔

"معلوم ہے کتنا عرصہ گزرگیا؟" اس نے شکایت بھرے انداز میں مجھ سے کہا۔

"ہاں یار، بس کیا بتاؤں، دنیا کے جھمیلوں میں ایسا پڑ گیا کہ کسی چیز کی خبر ہی نہ رہی۔ تم سناؤ کیسے ہو؟'

"ٹھیک ہوں،بس دیکھ لو یہ دکان ہے اور میں ہوں۔ آؤ اندر آؤ، اندر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔" اس کے ساتھ چلتا ہوا میں  دکان کے اندر آگیا۔ اس نے اپنی دکان میں کافی چیزیں رکھی ہوئ تھیں،  لگ رہا تھا کہ اچھا ہی چل رہا ہو گا بزنس۔

"بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔" اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں مجھ سے کہا۔

"تمہیں کیا بتاؤں کہ کتنی خواہش تھی آنے کی، لیکن ہر بار کوئ نیا پرابلم کھڑا ہوجاتا، اس سال میں نے سوچا کہ کچھ بھی ہوجاے ایک چکر ضرور لگاؤنگا۔ لو اب موجود ہوں  تمہارے سامنے۔جو سزا دینا ہے دے لو۔"

"تمہاری سزا یہی ہے کہ جب تک تم یہاں پر ہو روز میرے پاس آؤگے۔"

"چلو منظور۔" میرے یہ کہنے پر وہ مسکرادیا۔

" یہ بتاؤ تمہاری کیا خاطر کی جائے؟"

"خاطر تو ہوتی ہی رہے گی، زرا کچھ پرانی یادیں تازہ کروادو تو بہتر ہوگا۔"

"پرانی یادیں سن کر تو تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔سب سے پہلے تو یہ بتادوں کہ ان سب کی شادیاں ہو گیئں جن پر تمہاری نظریں تھیں۔"

"ایسا تو مت  کہو، کیا کوئ بھی نہیں بچا؟"

" نجمہ کی شادی ہوگئ اس کے تین بچے ہیں، رخسانہ کی شادی ہوگئ وہ یہاں سے چلی گئ، فرزانہ کی شادی ہوگئ،ذرینہ کی شادی ہوگئ، ان سب کی شادیاں ہوگئیں جن کا تم پیچھاکیا کرتے تھے۔"

"کیا نفیسہ کی بھی شادی ہوگئ؟" میں نے اس پر بھی ایک چوٹ ماردی۔

اس پر وہ تھوڑا سا شرمایا۔ ہاں شادی بھی ہوگئ اور چار بچے بھی ہوگئے۔ ابھی بلاتا ہوں میں ان کو۔ ابھی یہ کہنا ہی تھا کہ ایک بچہ دکان کے اندر داخل ہوگیا۔

"یہ ہیں میرے چھوٹے صاحبزادے۔" اس نے اپنے بچے کا تعارف کرایا۔

"چلو ہم میں سے ایک تو خوش ہے۔ کسی کا تو کام بنا۔" یہ سننے پر سلیم کے چہرہ پر ایک مسکراہٹ سی آگئ۔

"اور سناؤ، وصیم، زبیر، کبیر یہ سب  لوگ کیسے ہیں؟" میرے اس سوال پر وہ کچھ بجھ سا گیا۔

وصیم تو شاید مڈل ایسٹ چلایا کیا، اس کے گھر والے دستگیر میں کہیں ہیں۔زبیر لوک بھی چلے گئے۔"

"اور کبیر؟"

اس نے ایک نظر میری طرف غور سے دیکھا، پھر کہا،"تمہیں پتہ نہیں؟"

"نہیں"

"تمہارے جانے کے تیسرے ہی سال بعد اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ ٹی بی جو  ہوگئ تھی اس کو ۔ تمہیں بڑا یاد کرتا تھا۔ کہتا تھا صفدر مجھے ضرور امریکا بلائے گا۔ پر تم نے کبھی پلٹ کے تک نہیں پو چھا۔"
 یہ سنتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے میرے زہن میں ایک ٹیس سی اٹھی ہو۔ایک آواز جیسے میرے حلق میں  اٹک  سی گئ ہو۔ کرسی پر اپنا سر دیے   سوچتا رہا، میں کیسے اتنا خود غرض ہو گیا تھا۔

" ہم کچھ دن تک تو تمہیں بہت یاد کرتے رہے مگرتم بہت بے وفا نکلے، تمہاری طرف سے کوئ خط کچھ بھی تو نہیں آیا۔"

"نہیں یار ایسا مت سمجھو، مجھے معاف کردو۔  "

اچھا یہ بتاؤ، کیا شام کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤگے؟؀" اس نے مجھے افسردہ دیکھ کر بات پلٹنے کی کوشش کی۔

"ضرور" میں نے فوراً حامی بھر لی۔ مگر ابھی تو مجھے اجازت دوتم زرا دکانداری کرو میں شام کو پھر آونگا۔" یہ کہہ کر میں ابھی اٹھنے ہی والا تھا کہ تین لڑکے کاؤنٹر کے قریب آئے۔

"سلیم صاحب، آپ نے پچھلے دو ہفتوں سے ہم کو ٹرخایا ہوا ہے۔ آج تو ہم اپنی تنخواہ لے کر ہی جائں گے۔"

میں نے دیکھا کہ سلیم کا چہرہ اچانک فق ہو گیا تھا۔

"کیا تم لوگ دیکھ نہیں رہے کہ کچھ کمائ نہیں ہو رہی۔" اس کی آواز میں غصہ اور گھبراہٹ دونوں شامل تھیں۔

"ہم کچھ نہیں جانتے، آج تو ہم اپنی تنخواہ لے کر ہی جائں گے۔"

میں  دم بخود یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ سلیم نے لوگوں کی تنخواہیں روکی ہوئ ہیں۔

"تم لوگ اگر چاہو تو سامان لے جاؤ، میرے پاس دینے کے لیے کوئ پیسہ نہیں ہے۔" اس کی شکل تقریباً رونے والی ہو چکی تھی۔

"ہم سامان کا کیا گریں گے۔ہمیں تو پیسہ چاہیے"

"یہ لوگ کس بات کا پیسہ مانگنے رہے ہیں۔" مجھے اب بیچ میں آنا پڑا۔

"تم  بیچ میں نہ آو تو بہتر ہے۔" سلیم نے مجھے فوراً ٹوک دیا۔

"یہ کون صاحب ہیں؟" ان میں سے ایک نے پوچھا۔

"تم کو اس سے کوئ غرض نہیں، اب میں تم لوگوں کو کوئ پیسہ نہیں دونگا، جا سکتے ہو یہاں سے۔" سلیم نے اپنی آواز تیز کر لی تھی۔

"تو پھر سمجھ لیں کیا ہوگا انجام۔" ایک دھمکی والے انداز میں ان میں سے ایک نے کہا۔

مجھ سے ٹھہرا نہیں گیا ، کم سے کم اس مصیبت سے تو میں سلیم کو نجات دلا سکتا تھا۔
"مجھے بتاؤ کتنا پیسہ چاہئے؟" میں نے لڑکوں سے مخاطب ہو تے ہوے کہا۔

"جی ہم کو ہر ہفتہ سو روپیہ ملتا تھا، رات بھر چوکیداری کرتے ہیں، کتنی دفعہ ان کے اسٹور میں چوری ہوئ ہمارے سے پہلے، مگر اب پوچھیں کبھی چوری ہوی ہے۔"

"چور بھی یہی ہیں اور چوکیدار بھی یہی ہیں۔" فوراً سلیم کی غصہ بھری آواز آئ۔

"ہم  پر الزام لگانا ٹھیک نہیں ہے سلیم صاحب۔"

مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہو سکا اور میں نے جیب سے پانسو کا نوٹ نکال کر ان کی طرف بڑھادیا۔"

ان میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کر پیسے لےليے۔

"لگتا ایسا ہے کسی موٹی آسامی سے دوستی کرلی ہے۔" ایک نے سلیم سے مخاطب ہو کر کہا۔

"اب تو تم لوگ چلے جاؤ۔" سلیم نے جواب میں کہا۔

"جاتے ہیں ، جاتے ہیں۔" پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے، " اگر کسی چوکیدار کی ضرورت ہو تو ہمیں ضرور یاد رکھئے گا" 

یہ کہہ کر وہ چلے گئے  اور ادھر سلیم کے چہرے پر حیبت چھائ ہوئ تھی۔

"یہ تم نے کیا کردیا، دیکھتے نہیں یہ بھتہ خور ہیں۔ تم تو یہاں سے چلے جاؤ گے، ہم کیسے ان کو اتنا پیسہ دیتے رہیں۔"

"بھتہ خور، یہ تم کیا کہہ رہے ہو؀؟"

"ہاں اب یہاں کا سب سے بڑا بزنس بھتہ خوری ہی ہے۔میں نہیں چاہ رہا تھا کہ تم بیچ میں پڑو۔ یہ تمہارے پیچھے پڑ جائں گے اور تمہاری کھال کھینچ لیں گے۔"

"ارے یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔"

"میں بس کہہ رہا ہوں کہ بچ  کے رہنا ان سے، زیادہ بہادر بننے کی کوشش مت کرنا ان کے سامنے۔"

اتنے میں دکان پر کچھ گاہک آگئے۔اور میں دکان سے باہر آگیا۔

یہ کیا غنڈہ گردی مچائ ہوئ ہے لوگوں نے یہاں، اب مجھے کوفت سی ہونے لگی تھی۔چلو اچھا ہوا جو میں یہاں سے چلا گیا، کم سے کم ایسے مسلے تو میری زندگی میں نہیں ہیں۔مجھ پر تو ان چیزوں کا کوئ اثر نہیں ہوگا،اور میں اپنا موڈ زیادہ خراب کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ زرا  شطرنج کھیل کر وقت گزار لوں۔ اشرف صاحب کی گلی میں میں روز شام کو شطرنج جمتی تھی اور رات گئے تک چلتی تھی۔ میرا بھی کچھ معمول سا بن چکا تھا ان کے ساتھ شطرنج کھیلنے کا۔اشرف صاحب یہاں کے سب سے اچھے کھلاڑی بھی تھے اور انہوں نے ہی مجھے شطرنج سکھائ تھی۔میرا گیم کچھ ہی دنوں میں بہت اچھا ہو گیا تھا اور ہر ایک کو مات دینے لگا تھا۔مجھے مزا بھی بہت آتا تھا ان کو ہرانے میں۔ زیادہ تر لوگ ہارنے کے بعد بذد ہوتے تھے کہ ایک اور بازی کھیلو، ایک لحاظ سے وہ ہارنے کو ایک چیلنج کے طور پر لیتے تھے، اس امید پر کے اس دفعہ ہرادیں گے۔ رات گئے تک یہی سلسلہ چلتے رہتا تھا۔

اشرف صاحب کی گلی میں پہنچ کر دور سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ خوب بازی جمی ہوئ ہے۔ لوگ اسی طرح چبوترے پر بیٹھے ہوے تھے اور بازیاں جمی ہوئ تھیں۔ میں بھی قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔میں نے دور سے ہی اشرف صاحب کو پہچان لیا تھا حالانکہ وہ اب کافی بوڑھے لگنے لگے تھے۔

اچانک اشرف صاحب نے شطرنج سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا۔تھوڑی دیر غور سے دیکھتے اور مجھے مسکراتا دیکھ کر پریشان سے ہوگئے۔

"اشرف صاحب میں صفدر ہوں۔"یہ سنتے ہی شطرنج چھوڑ کر انہوں نے مجھے گلے لگالیا اور پھر سب سے میرا تعارف کرانے لگے۔

"یہ صفدر ہیں، میرے سب سے اچھا شاگرد۔ آج تو بازی میں مزہ ہی کچھ اور آئے گا۔" یہ کہہ کر انہوں نے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اور میں بھی شطرنج میں مشغول ہوگیا۔"

"معلوم بھی ہے کتنا عرصہ گزر گیا؟"

"ہاں بس کیا بتاؤں، آج ہی آیا تھا اور فوراً آپ کے پاس آیا ہوں۔"

"چلو تم نے ہمیں یاد تو کیا۔" پھر انہوں نے برابر میں بیٹھے ایک لڑکے سے کہہ کر سب کے واسطے چائے کا آرڈر دے دیا۔ وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھتے رہے اور میں ان کا جواب دیتا رہا، لیکن میرا زہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ سوچتا رہا میری زندگی میں کیا ایسا فرق پڑ جاتا اگر میں یہ جگہ نہیں چھوڑتا۔

"آؤ میرے ساتھ ایک بازی کھیلو" اشرف صاحب کی آواز نے مجھے چونکا دیا اور پھر میں ان کے ساتھ شطرنج میں محو ہوگیا۔مگر میرا زہن کہیں اور تھا۔ کن انکھیوں سے  تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میں سامنے والی منزل کو دیکھتا کہ شاید کوئ ایک جھلک نظر آجائے فرزانہ  کی۔

ہم سب مگن تھے اپنے کھیلوں میں اور ابھی پہلی ہی بازی چل رہی تھی کہ اچانک ایک  لڑکا چیختا ہوا آیا۔

"نذیر کو کسی نے مار دیا، نذیر کو کسی نے مار دیا۔" سب لوگ ہکا بکا ہو گئے۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو؟" ایک نے بچے سے پوچھنے کی کوشش کی۔

"گلی کے کونے میں اس کی باڈی پڑی ہے۔ایک ٹیکسی یہا ں پر رکی تھی اور دہ اس کی باڈی زمین پر دال کر بھاگ گئ۔"

اچانک سب اٹھ کر گلی کے کونے کی طرف بھاگنے لگے۔ ایک لمحے کے لئے میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیاہو گیا۔ پھر میں بھی اٹھ کر ان کےیچھے پیچھے بھاگنے لگا۔ اس وقت تک ایک جم غفیر جمع ہو چکا تھا اور لوگ ایک دائرے میں کھڑے  تھے۔ قریب پہنچنے پر بھی مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔  اچک اچک کر کاندھوں کے بیچ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر میری نظر زمین پر پڑی۔ ایک بجلی سی میرے بدن میں روند گئ۔ ایک بوری میں  لاش بندھی تھی۔ آدھا جسم باہر تھا۔ میں نے اور قریب آکر دیکھنے کوشش کی۔ پھٹی پھٹی بے جان آنکھوں کا ایک چہرہ خون میں لت پت تھا۔ زمین پر بے سود وہ آنکھیں خلا میں کہیں دور گھورتی نظر آنے لگیں۔اس لاش کے پورے بدن پر بے شمار داغ تھے۔خوف سے میرا بدن کانپنے لگا۔

پھر ایسے لگا جیسے ایک گرمی کی شدت کے تھپیڑے گزررہے ہوں۔ میرے بدن میں سویاں سی چھبنے لگیں ۔پھر یہی تھپیڑے شعلوں میں بدلنے لگے، ان شعلوں میں کچھ حیبتناک چہرے بننے لگے۔ ہر شعلہ پر ایک چہرہ لپکتا  اور قہقہہ مارتا ہوا  فضا میں تحلیل ہوجاتا ، پھر یوں لگا جیسے  یہ اشاروں سے مجھے بلارہے ہوں ، جیسے اپنے ساتھ ناچ کی دعوت دے رہے ہوں، سب میری طرف اشارہ کررہے تھے ، جیسے کہہ رہے ہوں آؤ اور اس لاش پر ناچو، شاید مجھے اپنا سمجھ رہے تھے، مگرمیرا پورا جسم سن ہو چکا تھا۔

لوگوں نے اس لاش کے اطراف ایک گھیرا ڈالا ہوا تھا،  مجھے  ایسے لگا یہ سب کسی اور دنیا کی مخلوق ہوں، جیسے ان کے یہاں مرنے کا طریقہ ایسا ہی ہو۔ شیطانوں کے ناچ کے  بیچ ان  سب کے بے جان چہرے ایک ستون کی مانند لگ رہے تھے۔ پھر ایسے لگا جیسے شیطانوں نے ہی یہ چہرے اٹھاے ہوئے ہوں۔ وہ یہ چہرے اٹھا کر موت کا ناچ ناچ رہے ہوں، میرے نظروں کے سامنے قیامت کا یہ کھیل کچھ دیر چلتا رہا، شیطانوں کا رقص ہوتا رہا۔ میرا بدن اتنا نڈھال ہو چکا تھا کہ  ایک قدم نہیں بڑھا سکھ رہا تھا۔ میری  نظریں ایک لمحے کے لئے  دوبارہ اس لاش کے چہرے پر پڑیں اور پھر ایسے لگا جیسے اس لاش کی  آنکھیں مجھ میں پیوست ہونے لگی ہوں۔ یوں لگا جیسے اس لاش  میں کچھ زندگی آگئ ہو،یہ آنکھیں مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھیں مگر مجھ میں ہمت نہیں تھی سننے کی۔ میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آئ اور میں بے اختیار  دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

 چاہ رہا تھا کہ کوئ آگے بڑھ کر اس لاش کے بدن کو ڈھانپ دے تاکہ یہ آنکھیں مجھ سے دور ہوجائں،  مگر کوئ بھی  آگے نہیں بڑھا شاید وہ سب ہی  میری طرح دم بخود   تھے۔ اب میں یہاں سے جلد سے جلد دور چلا جانا چاہ رہا تھا، تھوڑے حواس کو قابو کر کے بے جان قدم اٹھا تا ہوا اپنی گاڑی تک واپس آیا، گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھے ایک زور کی الٹی آئ، دروازہ کھول کر میں نے باہر الٹی کی اور پھر سیٹ  کو جھکا کر اپنا سر اس پر رکھ دیا۔ اس قابل نہیں تھا کہ گاڑی چلا سکتا، سیٹ جھکا کر اپنا سرسیٹ پر  ڈال کر لیٹ  گیا۔

پتہ نہیں کتنی دیر تک میری یہ حالت رہی، پھر گاڑی اسٹارٹ کرکے  سڑک پر آگیا، اب مجھے ہوٹل آنے کی جلدی تھی، کیونکہ اس حالت  میں کسی طرح بھی باہر نہیں رہ سکتا تھا۔

ہوٹل کے کمرہ میں آکر بے سود اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ بدن میں برداشت نہیں تھی کہ  کچھ دیر اور کھڑا رہ سکتا۔بستر پر لیٹتے ہی کپکپی طاری ہونے لگی اور بدن پسینے میں شرابور ہو گیا ۔ معلوم نہیں مجھےنیند  آئ بھی کہ نہیں، سارا وقت آنکھوں میں شیطانوں کا رقص گھومتا رہا۔ شاید میں بے حوش ہو چکا تھا۔

 

 

 

رات کا تیسرا پہر ہوگا کہ میری چھٹی حس نے مجھے جگا دیا۔  ایسے لگا جیسے کمرے میں کوئ موجود ہے۔ میں فوراً بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ہاتھ بڑھا کر  سرہانے رکھا لیمپ جلانے کی کوشش کی کیونکہ  اندھیرے  میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ لیمپ کی روشنی آتے ہی میرے پیروں تلے زمین نکل  گئ، وہی کل والی لاش کرسی پر بیٹھے مجھے گھور رہی تھی۔اس کا خون آلود بدن کمرے کی دھیمی روشنی میں ایک آگ کی طرح  جل رہا تھا۔

ایک لمحے میں میرا حلق سوکھ کر کانٹا ہوگیا، مگر ایک مقناطس کی مانند میں بستر پر چپکا ہوا تھا،"مجھ سے کیا چاہتے ہو تم؟" گھگیائے ہوئے انداز میں میں نے اس سے پوچھا۔

"انہوں نے مجھے بہت تکلیف دے کے مارا ہے، دیکھو یہ میری انگلیوں کے ناخن انہوں نے اکھاڑے ہیں۔" اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی انگکیاں  دکھائں۔بے ناخن کی وہ انگلیاں صرف خون کا ایک لوتھڑالگ رہی تھیں۔

"اور یہ دیکھو میرا پیٹ کس طرح کاٹا انہوں نے۔" اس نے اپنا پیٹ چیر  کر مجھے دکھانے کی کوشش کی۔

"میں بے قصور تھا مگر وہ سننا نہیں چاہ رہے تھے۔"

"میں کیا کروں؟" میرے حلق سے بڑی مشکل سے یہ الفاظ نکلے۔

"مجھے انصاف چاہئے" یہ کہہ کر وہ کرسی سے اٹھا اور چلتا ہوا دیوار  سے اس طرح گزر گیا جیسے وہ کوئ رکاوٹ ہی نہ تھی۔

اس کے جانے کے تھوڑی دیر تک میں ایک بت کی مانند ویسا ہی بستر پر بیٹھا  رہا۔بڑی مشکل سے اٹھ کر  باتھ روم کے نلکے تک آیا اور پتہ نہیں کتنی دیر تک  ہاتھوں سے پانی بھر بھر کے اپنے منہ پر مارتا رہا۔بڑی مشکل سے بدن قابو میں آیا، پھربستر پر آکر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میرے جانے کے بعد یہ جگہ  وحشیوں کی آماجگہ ہو جاےگی  اور اتنے درندہ صفت لوگ آجائنگے۔بار بار اس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے، مجھے انصاف چاہیے، مجھے انصاف چاہیے۔میں کہاں سے انصاف دلا سکتا، میں تو یہاں پر رہتا بھی نہیں، پھر مجھ سے ایسی توقع کیوں۔ بھوت پریت سے مجھے ویسے ہی  بہت ڈر لگتا تھا اور اب یہ سچ مچ کا بھوت سر پر سوار ہوگیا تھا۔میں دنیا کی ہر مصیبت کا مقابلہ کر سکتا ، مگر بھوتوں سے مقابلہ کرنا میرے بس کا نہیں۔ جتنا عرصہ اس شہر میں رہونگا ایک ٹیس کی طرح یہ واقعہ میرے زہن میں آتا رہے گا، بہتر یہی ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔اب میرا یہاں رہنا ممکن نہیں، کل کا ٹکٹ کٹانا ہے اور جانا ہے۔ جہاں تک محبت  کا تعلق ہے ، یہ دنیا کی ناکام محبتوں میں ایک کا اضافہ ہوگا، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا  اور نہ کوئ ہنگامہ ہوگا۔ضروری نہیں کہ زندگی کی ہر خواہش پوری ہوجائے۔ اگر میری قسمت میں محبت ہوگی تو پھر  مل جائے گا، ورنہ جیسے ہزاروں لوگ بے مقصد زندگی گزارتے ہیں میں بھی گزار لونگا۔ اب صرف صبح کا انتظار کر رہا تھا۔


                                                ۲

 

بڑی مشکل سے صبح ہوئ، سوچ لیا تھا کہ  اپنی فلائٹ بدلواکر آج ہی کی فلائٹ لے لونگا چاہنے کتنا ہی پیسہ دینا پڑے اور سیدھا ائیر پورٹ پہنچ جاؤنگا، اب  واپس آنا نہیں تھا۔جلدی جلدی  سارے کپڑے سوٹ کیس میں ٹھونسے، کاؤنٹر پر آکر کلرک کو چابیاں دے دیں اور اس سے کہہ دیا کہ  اب واپس جا رہا ہوں اس لئے کمرہ خالی کر رہا ہوں۔

"مگر جناب آپ نے تو ایک مہینہ کے لئے بک کروایا ہوا تھا۔" کاونٹر کلرک نے حیرانی سے پوچھا۔

"چلو وہ معاف کیا۔" یہ کہہ کر  سوٹ کیس  اٹھاے اور ہوٹل سے باہر واپس آگیا۔ رینٹاکار کے آفس آکر ان کو بھی کہہ دیا کہ اب گاڑی کی ضرورت نہیں رہی،  چابیاں واپس کرکے اور  سامان اٹھاکر  باہر فٹ پاتھ پر ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا۔

تھوڑی ہی دیربعد  ایک خالی ٹیکسی نظر آئ ، اس کو ہاتھ کے اشارہ سے رکوا کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

"مجھے ایئر لائن کے دفترلے چلو۔" بہت ہی بےزار آواز سے اس کو چلنے کا کہا،میرا موڈ اب  مکمل طور پر آف ہو چکا تھا  ۔

تھوڑی ہی  دير بعد دفنر آگیا  لیکن ابھی  کھلا نہیں تھا۔  سوٹ کیس اٹھائے باہر انتظار کرنے لگا۔نو بجے کے قریب  کسی نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر آنے کا کہا۔  پہلا کسٹمر تھا اس لئے فوراً ہی کاونٹر پر جگہ مل گئ۔

"مجھے اپنی بکنگ چینج کروانی ہے اور مجھے آج کا ٹکٹ چاہیے۔" یہ کہہ کر میں نے کلرک کے سامنے  اپنا ٹکٹ رکھ دیا۔

تھوڑی دیر تک وہ  ٹکٹ کو دیکھتا رہا پھر  ٹکٹ واپس کردیے۔

"آئ ایم سوری، ہم بکنگ نہیں بدل سکتے ہیں اور آج کے لیے کوئ سیٹ نہیں ہے۔"

"پلیز، میں زیادہ پیسے دینے کے لئے تیار ہوں مگر مجھے آج ہی کی سیٹ چاہیے۔" میں بھی بضد تھا۔

"جناب ہم کچھ نہیں کر سکتے  آج کی کوئ سیٹ نہیں ہے۔" اس  نے زرا منہ بنا کر جواب دیا۔

"کچھ بھی کریں ، مگر  مجھے آج ہی جانا ہے۔"

"ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ کل آئں۔" میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کے یہ کہنے پر مجھے  غصہ آگیا,"کیا میں  مینیجر سے بات کرسکتا  ہوں؟"   میں یہ معاملہ اب  اوپر سے حل کروانا چاہ رہا تھا۔

اچھا ٹہریں میں مینیجر کو بلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعدشاید  وہ اپنے باس کو  لے آیا۔

"یہ ہیں صفدر صاحب، ان کو آج ہی کی بکنگ چاہیئے ، یہ آج ہی واپس جانا چا ہتے ہیں۔"  کلرک نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔

مینیجر نے مجھ سے ہاتھ ملائے، "جناب میں یہاں کا مینیجر ہوں  اور معاف کیجئے گا آج کی کوئ بکنگ نہیں ، آپ ہمیں اپنا نام اور ٹیلیفون نمبر دے دیں، جو پہلی بکنگ ہو ہم آپ کو بتا دیں گے۔ " مینیجر نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔

"مگر مجھے آج ہی کی بکنگ چاہیے۔" میں بھی اڑ گیا۔

"آج کی تاریخ میں تو نا ممکن ہے آپ بعد میں آئے گا۔" یہ کہہ کر وہ جانے لگا۔

"آپ جتنے کہیں میں اتنے  پیسے دینے کے لئے تیار ہوں۔" میں نے ایک آخری کوشش کی۔

"کیا پلین چارٹر کروائنگے آپ؟" اس نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں مجھ سے پوچھا۔

یہ سننا تھا کہ تن بدن میں آگ لگ گئ، غصہ میں   ٹکٹ اٹھاے ۔

"تم لوگوں کو بزنس کی تمیز نہیں ہے۔"

یہ کہہ کر آفس کے درواذے سےباہر نکل آیا۔ سامنے ایک ٹیکسی تھی اس کو ہاتھ کے اشارہ  دیا  اور پچھلی سیٹ پر اپنے آپ کو گرالیا۔

"کہاں چلوں صاب ؟"  ڈرایور نے پوچھا۔

"جہنم میں لے چلو مگر یہاں سے چلے چلو۔"  میرے اس جواب پر اس نے ٹیکسی آگے بزھادی۔

میں سوچتا رہا  اب میں کس طرح اتنا وقت  گزاروں گا، یہاں آکر تو میں نے بہت سخت غلطی کی،نہ یہاں کے لوگوں کو  بزنس کی تمیز ہے نہ ان میں انسانیت ہے،  یہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی، اچھا ہی ہوا جو میں نے یہ جگہ چھوڑ دی۔

"کیا آپ کی بکنگ نہیں ہو سکی؟" اچانک ڈرائور کی آواز نے مجہے  چونکا دیا۔

"ہاں، تمہیں کیسے معلوم؟"

"صاحب جو بھی اس آفس کے  دروازے سے نکلتا ہے اس کو یہی شکایت ہو تی ہے۔ " اس نے ایک عالمانہ انداز میں مجھے جواب دیا۔

" ویسے کیا آپ امریکا سے آے  ہیں ؟ " اس نے ایک اور سوال کر دیا۔

"ہاں ، اور میں اب فوراً سے پیشتر واپس جانا چاہتا ہوں،"

"ایسی بھی کیا جلدی ہے؟"

"اگر تمہارے سر پر بھوت سوار ہو جاے تو یقیناً تم بھی یہی کروگے۔"  اس کے استفسار پر میں نے جواب دیا۔

آئنے سے وہ مجھے حیران کن نظروں سے  دیکھنے لگا، اس بات نے اس کا تجسس اور بزھا دیا۔

"آپ کب آے تھے امیریکا سے؟"

"کل آیا تھا اور آج واپس جانا چاہتا ہوں۔"

"کیا رشتہ داروں سے جھگزا ہوگیا؟"

"میرا اب یہاں  پر کوئ رشتہ دار  نہیں رہتا،  الله کے فضل سے اب  سب امریکا میں رہتے ہیں۔ ویسے تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟"

"بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا، میں نے تو ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ  لوگ آئں اور ایک ہی دن میں واپس جا نا چاہیں۔زرا انجواے کریں،  گھومے پھریں ،کھايں پیيں "

"کیا خاک انجواے کریں، ہر جگہ پر بھتہ خور دندناتے پھر رہے ہیں ، لوگ دن دھاڑے قتل کرتے  ہیں اور تم کہتے ہو  گھومیں پھریں۔"

"ہاں ویسے یہ پرابلم تو ہے، مگر اب تو  حالات  بہت بہتر ہو گئے ہیں۔"  اس نے  دھیمے  لہجے میں مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔

" ہمارے زمانے میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا، ہم اپنے دوستوں کے ساتھ رات کے ایک  ایک بجے فلم دیکھ کر آتے تھے اور کبھی یہ خوف نہیں ہوا کہ کوئ مار دے گا۔"

"آپ صحیح کہتے ہیں جناب،  وہ زمانہ کچھ اور تھا اور اب کچھ اور، اب تو ایک ایسی ہوا چلی ہے  کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہو گئے ہیں، ان کا بس چلے تو زندہ لوگوں کی کھالیں اتار کر بیچ دیں۔موت بڑی سستی ہوگئ ہے یہاں پر۔ اب یہاں پر کچھ نہیں بچا، جو جتنا لیجا سکتا تھا یہاں سے لیجا چکا۔"

"ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو، لوگوں نے بیڑا غرق کردیا یہاں کا۔" میں نے ایک ٹھنڈی سانس  بھر کر کہا۔

" کتنے عرصے بعد آے ہیں آپ؟ "

"سترا سال کے بعد یہاں پر آیا تھا  اور آنے کے  پہلے ہی دن ایک بوری میں لاش دیکھنے کو مل گئ۔"

"تو آپ نے ایک بوری میں بھری لاش دیکھی اور سوچ لیا کہ یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔" ڈرائور  کے لہجے میں ایک سنجیدگی تھی۔

"تو تمہارا کیا مطلب ہے، سینہ تان کے کھڑا ہو جاؤں اور اپنی لاش بھی بوری میں بھروالوں؟"

"اگر آپ کی لاش کی قسمت  میں ایسا ہی لکھا  ہے تو اس کو کوئ روک نہیں سکتا۔" اس نے تھوڑا فلسفیانہ انداز اختیار کرلیا تھا۔

"کوشش تو میری یہی ہوگی کہ جتنے زیادہ دن زندہ رہ سکوں رہوں۔اور یہ بہادری کا سبق کسی اور کو دینا۔"

"میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ آپ مقابلہ کریں۔ مگر آپ کی  انسانیت کہا ں گئ۔  مرنے والا تو بے چارہ مرگیا  لیکن جو زندہ بچ گئے ہیں ان کا فرص ہے کہ اب وہ کسی اور کی لاش کی ایسی بے حرمتی نہ ہونے دیں۔" میں نے دیکھا کہ  ڈرائور کچھ جذباتی  سا ہورہا تھا۔

"نہ میں یہاں پر رہتا ہوں، نا یہ میری زمہ داری ہے۔ یہ تو ان کا فرض ہے جو یہاں رہتے ہیں۔"

"کیا آپ نے غور کیا اب یہاں پر کون رہتا ہے؟ کچھ وہ لوگ ہیں جو  آخری خون کا خطرہ نچوڑنے کے انتظار میں ہیں اور باقی وہ لوگ ہیں جو چپ چاپ کھڑے لٹنے کا تماشہ دیکھتے ہیں۔"

"یہ تو پھر اس قوم کی بد نصیبی ہوئ۔"

"آپ صحیح کہہ رہے ہیں جناب، بڑی بد نصیب  ہے یہ قوم۔ اس کو صرف ایسے لوک ملے جنہوں  نے اس کو  دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور  لوٹ کر جا چکے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہہ اس کے اپنے لوگ تھے۔" میں نے محسوس کیا کہ اس کی باتوں میں ہلکا سا طنز آچکا تھا۔

میں بلا وجہہ اس ٹیکسی ڈرائور سے الجھنا نہیں چاہ رہا تھا  اس لئے خاموش رہااور  شیشے  سے باہر  دیکھنے لگا۔شیشے کو زرا نیچا کرنے پر ہوا کا ایک خوش گوار سا جھونکا آیا جس نے تھوڑی سی میری کوفت دور کردی تھی۔اچانک برابر سے ایک رکشہ فراٹے بھرتا ہوا گزرا  جس کے پیچھے دھویں کا ایک غبار تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک جیٹ ہو جو دھویں کو پیچھے دھکیل کر آ گے بڑھ رہا ہو۔  زرا سی دیر میں ہر چیز سرمئ سی ہو گئ تھی، میں نے فوراً شیشے کو اوپر کیا مگر اس کے باوجود بھی ٹیکسی میں کا فی دھواں بھر چکا  تھا،  مجھ پر کھانسی کا ایک دورہ سا پڑ ا ، بڑی مشکل سے میں نے اپنی کھانسی روکی۔

"شاید آپ اس دھویں کے عادی نہیں رہے ۔ ڈرائور نے اس پر ایک اور چوٹ ماری۔"

"کون ہو سکتا ہے اس دھویں کا عادی، یہ تو بے حسی کی انتہاہ ہے، کیا اتنی جاہل ہے یہ قوم، اسی کی وجہ سے تو یہاں کے لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔"   میں نے بھی واپس اس پر چوٹ مار دی۔

پیچھے کے آئنے سے وہ مجھے بار بار دیکھ رہا تھا ، شاید اندازہ کرنا چاہ رہا ہوگا کہ میرے آنے کا مقصد کیا تھا۔میرا زہن مکمل طور پر ماؤف ہو چکا تھا، چاہ رہا تھا کہ کسی طریقے سے یہ وقت کزر جائے اور زہن کو کچھ سکون آجائے۔یوں ہی بے مقصد گاڑی دوڑتی رہی  اور وقت گزرتا رہا، پھر مجھے تھوڑا سکون آنے لگا۔

"کیا میں بھی امریکا آسکتا ہوں؟" اچانک  ڈرائیور نے ایک سوال کیا۔

"امریکا آنے کے ليے یا تو پیسا چاہیے یا تعلیم،  وہ جگہہ جاہلوں کے لیے نہیں۔"  میں نے اس کو اس کی حیثیت سمجھا دی۔

"تو صاحب آپ یہاں سے تعلیم لے گئے تھے یا پیسہ؟"

"میں یہاں سے کوئ پیسا نہیں لے گیا اور جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے یہ تو ہر قوم کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دے۔"

 میں نے فخر سے اسے بتا نے کی کوشش کی۔

"اپنے بچوں کو دیتے ہیں، ان کو نہیں جو قوم کے منہ پر تمانچہ مار کر چلے جایں۔جو بچہ چائے بیچتا ہے اس کا حق مار کر آپ کو تعلیم دی گئ اور آپ کہتے ہیں آپ پر کوئ احسان ہی نہیں کیا۔" اس کے لہجے میں تیزی سی آکئ تھی۔

"کیا اس  مٹی نے آپ کو کچھ نہیں دیا؟ آپ تو ماشالله سے زہین لگتے ہیں،  اس دھرتی کی ماں نے کیا نہیں امیدیں باندی ہونگی؟" ڈرائور نے کچھ زیادہ ہی جزباتی باتیں شروع کردی تھیں اور  اس کے لہجے نے ترشی اختیار کر لی تھی۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور مجھے سبق پزھانے لگا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ نوبت آجاے گی، اور ویسے بھی دھر تی کی ماں واں جیسی جزباتی باتیں مجھ  پر اثر نہیں کر سکتی تھیں۔  میں نے بھی جواباً طنزیاً کہہ دیا،" اگر دھرتی   کی ماں تمہیں نظر آئے تو اس سے کہنا، آئ ایم سوری۔"

ہاں جناب آپ   ہی نہیں، بقول ہماری عصمت چغتائ کے، جو بھی یہاں سے گیا، سوری ممی کہہ کر ہی گیا۔"

"بہتر یہ ہے کہ تم گاڑی روک دو یہیں پر۔مجھے اب ذیادہ بکواس سننا نہیں ہے۔"

"چلیں اب ویسے بھی آپ کی منزل آ ہی گئ ۔" یہ کہہ کر اس نے تھوڑی دور جا کر گاڑی روک دی۔

"یہہ کہاں لے آؤ ہو مجھے۔" میں نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔

"آپ ہی تو کہہ رہے تھےکہ  آپ نے کل ایک بوری میں لاش دیکھی تھی۔ کل والی لاش اسی گلی میں گری تھی۔"

 پتہ نہیں کس راستے سے وہ مجھے اس گلی میں لے آیا تھا۔ مجھے ایسے لگا جیسےاس نے مجھے ہپناٹائز کردیا ہواور میرا زہن مکمل طور پر اس کے قبضے میں ہو، اس نے گاڑی ٹھیک اس جگہ روکی تھی جہاں پر خون کے دھبوں سے زمین ابھی تک لال تھی، لوگوں نے دھبہ کے اطراف پتھروں کا گھیرا بنا دیا تھا، ایسے ہی جیسے اس کا ایک عارضی مزار بنا دیا ہو۔ 

"اتریں اور غور سے دیکھیں، اس مٹی پر اس کے خون کے نشان کچھ دن اور رہیں گے پھر یہ خشک ہوجائیں گے، پھر آپ اور میں اسی مٹی کو روندتے ہوئے جائں گے، سب بھول جائیں گے کہ یہاں پر کسے کے ساتھ انسانیت کا بدترین سلوک ہوا تھا، کسی کی لاش کی بے حرمتی ہوئ تھی، ہو سکتا ہے یہ لاش آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی، کہیں آپ نے کبھی اس کا حق تو نہیں مارا؟"

بے اختیاردروازہ کھول کر میں ٹیکسی سے اتر آیا۔دیکھا تو قدم بڑھانے کے لئے مجھے انہی خون کے دھبوں سےگررنا تھا، بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو ان سے بچایا۔جیسے ہی پھلانگ کر میں دوسری طرف آیا،وہ ٹیکسی کو تیزی سے آگے بڑھا چکا تھا، اس نے مجھ سے پیسے بھی نہیں لئے، شاید میرے منہ پر ایک اور تمانچا مارنا چاہتا ہو۔ میں نے دل میں سوچایہ ٹیکسی والا بھی عجیب جذباتی آدمی  ہے،  کسی کے مرنے کا اتنا اثر لینا تو ٹھیک نہیں۔

مجھے تھوڑا وقت لگا اپنے حواس قائم کرنے کے لئے۔نظریں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا، سڑک پر ہوکا عالم تھا، یا تو لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے یا انہوں نے باہر نکلنا منا سب نہیں سمجھا تھا۔ دن چڑھ چکا تھا اور دھوپ میں شدت آ چکی تھی، مجھے اب بہت سخت پیاس لگنے لگی،  سوچا کہ سلیم کی دکان پر ہو سکتا ہے کچھ پینے کو مل جائے۔میں تھوڑی دیر کے لئے اس واقعہ کو بھولنا چاہ رہا تھا۔ کسے کے مرنے کے ساتھ مر تھوڑی جاتے ہیں۔ اگر بے چارے کی قسمت میں اسی  طرح مرنا تھا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ سلیم کی دکان پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ اداس بیٹھا ہوا خلا میں کچھ گھور کر رہا تھا۔ مجھے آتا دیکھ کر  وہ دکان سے باہر نکل کر  آگیا۔

"تم کل رات کو آئے نہیں؟ ہم  نے بڑا انتظار کیا  تمہارا" اس نے مجھ سے شکایتاً پوچھا۔

"آتا کیسے، دیکھا نہیں کل کیا ہوا تھا گلی کے کونے پر؟"

"تو تم نے دیکھ لی وہ  بوری کی لاش ۔یہ تو اب  یہاں کا معمول بن چکا ہے۔"

"تم کہتے ہو معمول بن چکا ہے۔یہ کیا ہوگیا اس جگہ کو،کیا کوئ پوچھنے والا نہیں؟"

"ہم تو اسے اپنی گناہوں کی سزا سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔"

"کتنی بے دردی سے مارا اس بے چارے کو۔" میرے ذہن میں لاش کا داغ دار جسم گھوم گیا۔

"تمہیں معلوم ہے کون تھا وہ؟" سلیم نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

"کون تھا وہ؟"

"کبیر کا بھائ تھا وہ۔" یہ سن کر میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئ۔ ایسے لگا جیسے سلیم نے ایک زناٹے کا تھپڑ میرے منہ پر مارا ہو۔

"کبیر کا بھائ؟"

"ہاں وہ بہت چھوٹا تھا جب تم یہاں سے گئے تھے۔"

میں پھر ایک سوچ میں پڑ گیا، کیا نذیر  کو معلوم تھا کہ اس کے بھائ نے کتنا بڑا احسان کیا تھا مجھ پر،کیا اسی وجہ سے اس کی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں؟۔شاید اسی وجہ سے وہ مجھ سے انصاف مانگ رہا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتا میں اس کی   مدد کردیتا، کم سے کم کبیر کے احسانوں کا کچھ تو بدلہ اتارتا۔

سلیم کو شاید میری سوچوں کا اندازہ ہوگیا تھا، "بڑا بدنصیب خاندان تھا۔ بڑا بھائ خون تھوک کر مرا اور چھوٹا بھائ خون دے کر مرا۔تم نے دیکھا کتنا  عجیب بدلہ لیتے ہیں یہاں کے لوگ۔ اپنی جان دے  دیتے ہیں تاکہ پھر کسی کو کچھ دینے کے لئے سوچنا ہی نہ پڑے۔"

سلیم کی باتیں ایک نشتر کی طرح میرے دل میں چبھ  گئیں۔ میرے پاس الفاظ نہیں تھے کہ میں اس کو بتا سکتا کہ میں کتنا شرمندہ ہوں۔

"کیا نذیر کی کوئ فیملی تھی؟"

"ہاں،ابھی تین  سال پہلے اس کی  شادی ہوئ  تھی،  ایک چھوٹی سی بچی ہے، پتہ نہیں اس بے چاری کا کیا ہوگا؟" سلیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔

"سلیم یہ کیا ہوگیا اس جگہ کو۔ یہاں پر تو لگتا ایسا ہے کہ درندے آگئے ہیں۔"

"ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ جن گلیوں میں تمہاری محبوبائں ہوا کرتی تھیں اب وہاں سے صرف بوریوں میں لاشیں ملتی ہیں۔" ان الفاظ کا کرب یا تو سلیم سمجھ سکتا تھا یا میں۔ ہم نے ان گلیوں میں اپنا بچپن گزارا تھا، مستقبل کے سہانے خواب دیکھے تھے،  اپنے لئے ساتھی چنے تھے،  ان کی مانگوں کو سنوارنے کی سوچھتے تھے ، پھر وقت نے مجھے ان سے علحیدہ کردیا، میں نے ان سب سے دور اپنے لئے ایک الگ دنیا بنا لی۔میرے جانے کے بعد ان کی دنیا اجڑ گئ، میں اگر یہاں ہوتا تو ان کی تکلیفوں کا اذالہ کرتا، کتنا اہم تھا میں ان کے لئے۔

"تمہیں کچھ پتہ ہے نذیر کو کس نے  مارا؟" میں نے  اس طرح پوچھا جیسے سلیم کو  یہ سب  معلوم ہوگا۔

"یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔" اس نے ایک بے خیالی میں جواب  دیا۔

پھر میں نے سلیم کو اپنا رات والا واقعہ سنایا،

"میں تمہیں بتاؤں، رات کو میرے  خواب ٰ میں نذیر آیا تھا۔وہ میرے سامنے بیٹھا مجھ سے شکایت کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کے اسے بہت تکلیف دے کر مارا ہے۔وہ کہہ رہا تھا اس کو انصاف چاہیے۔ اب تم خود ہی بتاؤ میں کہاں سے انصاف دلاؤں۔"

"ہاں تم کیسے انصاف دلوا سکتے ہو۔ تم تو کچھ دن کے لئے آئے ہو چلے جاؤگے۔انصاف تو یہاں پر رہنے والوں کو دلوانا چاہئے۔یہ تو ہماری غلطی ہے کہ ہم ان سے انصاف کی توقع کر بیٹھتے ہیں جنہوں نے کبھی اس جگہ کو اپنا نہیں سمجھا۔"  اس کے الفاظ میں  طنز  نمایاں تھا۔

"مگر یہ بھی تو دیکھو کہ میرا کیا مستقبل تھا یہاں پر۔" میں نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔

"ہو سکتا ہے تم نے جو کیا ہو صحیح کیا ہو۔"

"کچھ ٹھنڈا پلاؤ گے، بڑی پیاس لگ رہی ہے۔" مجھے واقعی بہت پیاس لگ رہی تھی۔

اس نے ایک ٹھنڈی بوتل کولر سے نکال کر میرے ہاتھ میں دے دی۔

"آج شام  کو ہم نذیر کو دفنانے جائنگے، چلو گے ہمارے ساتھ؟"

"ہاں ضرور۔بس ذرا مجھے ہوٹل جانا ہے تھوڑی دیر میں واپس آجاؤنگا۔" یہ کہہ کر سر جھکائے میں اس کی دکان سے باہر واپس آگیا۔

مجھے ہوٹل جا کر  بتا نا تھا ابھی کچھ دن اور ٹہرونگا یہاں۔پتہ نہیں کب واپس جانا ہو۔

دور گلی کے کونے میں مجھے ایک ٹیکسی نظر آئ، سوچا یہ کام اچھا ہوگیا۔ تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا ٹیکسی کی طرف آگیا۔

 

"تم؟"

ٹیکسی کے قریب آتے ہی میں چونکا،  وہی ڈرایور  اور گاڑی کے شیشے سے اس نے اپنا سر باہر نکالا ہوا تھا،  بتیسی باہر نکا ل کر  میری طرف فاتحانہ انداز  میں دیکھتے ہوے  اس نے ہاتھ بڑا کر پیچھے کا دروازہ کھولا،   مجھے ایسے لگا جیسے یہ ٹیکسی ایک چوہے دان ہو جس میں  ایک دفعہ اگر  داخل ہوگیا تو پھر باہر نہیں نکل سکونگا۔

تم بغیر پیسے لیے  چل دیے، یہ لو اپنے پیسے اور مجھے اس ٹیکسی میں نہیں بیٹھنا ہے، میں نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا تے ہوے کہا۔

ارے صاحب آپ خواہمخواہ کے ناراض ہو تے ہیں، بیٹھیں تو صحیح، اس نے ہاتھ بڑھا کر پیسے لیے اور خود ٹیکسی سے اتر کر پیچھے کا دروازہ کھولتے ہوے مجھے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا،

مجھے کوئ نصیحت نہیں سننی اور مجھے کوئ سبق نہیں پڑھاو گے، میں نے بیٹھنے کی حامی بھرنے سے پہلے اس کو تنبیح کرنے کی کوشش کی۔

چلیں یہ وعدہ رہا، میں آپ کی کوئ دل شکنی نہیں کرونگا۔

اس کی بات پر یقین نا آتے ہوے بھی میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔

ایک اچٹتی سی نظر میں نے ٹیکسی میں ڈالی، لگتا ہے اس نے کافی صفائ کی تھی، اور خوشبو بھی آرہی تھی۔

"مجھے اپنے ہوٹل جانا ہے اور پھر واپس بھی آنا ہے۔ٹہر سکتے ہو تم میرے داسطے؟" میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔

ہاں ہاں ضرور۔ اس کے بعد کہیں تو تفریح بھی کرا لاؤں؟"

آج تو نہیں پھر کبھی۔ویسے اس شہر میں تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئ تفریح کی جگہ ہوگی۔ میں نے بھی اس کو چھیڑتے ہوئے کہہ دیا۔

دیکھیں شروعات آپ کر رہے ہیں ، اگر میں نے کچھ کہا تو پھر آپ ناراض ہونگے، اس نے شہر کا دفاع ایسے کیا جیسے اس کی ذات پر حملہ ہو رہا ہو۔

ہوٹل آکر مجھے کلرک سے کہنا پڑا کہ آئ ایم سوری میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، مجھے میرا کمرہ واپس چاہئے۔

"مجھے معلوم تھا آپ واپس ضرور آئں گے۔" اس نے ہنستے ہوئے مجھے کمرے کی چابی تھما دی۔

واپس آلر ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔

"میرے پاس تھوڑا سا ٹائم ہے،  چا ہو تو شہر دکھا دو۔"  ڈرائیور سے میں نے درخواست کی۔ سلیم کے پاس جلدی نہیں جانا چاہ رہا تھا۔زہن پر  پہلے ہی سے بہت بوجھ  تھا۔اس کے پاس جا کر اور  گھٹن  ہی ہوتی۔

ڈرائور نے ٹیکسی اسٹارٹ کی اور ہم سڑک پر آگئے۔ سڑکوں پر گاڑی دوڑتی رہی اور وہ مجھے شہرکے بارے میں اس طرح بتا نےلگا جیسے کوئ ٹورسٹ گائڈ ہو۔

"یہ برج ہے، اب کا فی چوڑا کردیا ہے اس کو۔ آپ کے زمانے میں تو بہت چھوٹا ہو گا، اور یہ دیکھ رہے ہیں آپ، یہ سڑک سیدھا بیچ کی طرف جارہی ہے۔ آپ بیچ پر ضرور جائے گا۔کافی اچھا ہو گیا ہے اب۔ یہ شہر اب کافی بدل گیا ہے، اب آپ کو کوئ خالی میدان نظرنہیں  آےگا۔" ہاں یہ تو میں دیکھ ہی رہا ہوں۔" اپنی دانست میں  وہ میرا دل بہلا نے کی کوشش کر رہا تھا، مگر میرا زہن کہیں اور ہی تھا۔ اس کو شاید معلوم نہیں تھا  میں اس شہر کے چپے چپے سے واقف تھا۔

 وہ سمجھ گیا کہ میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا، اس نے بات پلٹنے کے لئے کہہ دیا۔"گانے سنیں گے آپ؟"

"ایک تو تم بولتے بہت ہو اور اوپر سے تمہاری  آواز بڑی بھونڈی ہے، میں کیسے تم سے گا نا سن لوں۔" میں نے ہنس کر اس کو ٹالنے کی کوشش کی۔

"نہیں، نہیں میں نہیں گاؤنگا،" وہ ذرا جھینپ سا گیا تھا۔

" میرے پاس کیسٹ ہیں، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض ،  جسکا کہیں وہ لگا دوں۔"

"تمہیں ان سب کے نام کیسے معلوم ؟ یہ تو بہت پرانے شاعر ہیں، تم تو پیدا بھی نہیں ہوئے ہو گے اس وقت۔"

"دراصل آپ جیسے کبھی کبھی ٹکرا جاتے ہیں، تو ان کو خوش کر نے کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔"

اس کے پاس بھی جواب تیار تھا۔

"اچھا تو ساحر لدھیانوی لگا دو۔" میں نے ہنستے ہوئے اس کو اجاذت دے دی۔

یوں ہی بے مقصد گاڑی دوڑتی رہی اور ان گانوں نے میری  کچھ ماضی کی یادیں تازہ کروادیں۔ گاڑی کے شیشوں سے  نظریں دایں اور بایں بھٹک رہی تھیں اور میں ان عمارتوں کو پہچاننے کی کوشش کررہاتھا جن کو میں نے سنگ میل بنائے ہوئے تھے۔یوں ہی خیالوں  میں گم راستہ کٹنے لگا  اور میرےتصور میں وہ وقت آنے لگا  جب میں تنہا نہیں تھا۔صوبی کو  اپنی زندگی کا مرکز بنا کر میں نے   اپنی ہر محرومی کا ازالہ کرلیا تھا، اب  پتہ نہیں کہاں وہ کس جہاں میں جا کر کھو گئ۔

 

پھر  اس محلے سے گزرا جو میرے زمانے میں نیا نیا آباد ہورہا تھا، لوگوں نے بڑے خوبصورت مکانات بنوانے شروع کر دئے تھے۔ یہاں سے گزرتے ہوے ان مکانات سے بڑا  متاثر ہوتا تھا ، مجھے ان مکانوں کے مکیں خوابوں کی دنیا والے لگتے تھے۔اب  میرےتصور میں وہ وقت آنے لگا  جب ہر  اچھے مکان کو دیکھ کر یہ سوچتا ، اگر یہ  خرید کر دیا تو کیا  وہ  خوش رہے گی اس میں۔ میرے لیے کتنا پر امید ہوتا تھا وہ وقت،  اب جبکہ اس قابل ہو چکا  کہ یہاں کے ہر مکان سے بہتر مکان بنوا سکتا تو کیا فائدہ ، اس ہستی کا پتہ ہی نہیں جو اس کو دیکھ کر خوش ہو سکے۔ وقت کے دھارے نے اسے مجھ سے بہت  دورکردیا تھا ،  اب مجھے بہت تنہا کردیا تھا۔

 

شام ہونے  لگی تھی مجھے واپس سلیم کے پاس جانا بھی  تھا۔

 ڈرائور سے کہا کہ اب مجھے داپس اسی گلی میں اتار دو، مجھے اپنے دوست سے ملنا ہے۔

سلیم کی دکان پر پہنچا تو دیکھا کہ سلیم پہلے ہی سے تیار ہے۔

"چلو اب میت کو اٹھانا ہے مسجد سے۔"

نذیر کے جنازے میں ذیادہ لوگ نہیں تھے۔صرف اس کی بیوی کے رشتہ دار تھے اور کچھ محلے والے۔ ہم لوگ خاموشی سے چلتے ہوئے قبرستان تک آگئے۔جنازے کی رسومات ابھی ختم ہی ہوئں تھیں کہ میں نے آگے بڑھ کر لوگوں سے درخواست کی،

" میں اپنے ہاتھوں سے اس کو لٹانا چاہتا ہوں، کیا  آپ لوگ اجازت دیں گے؟" سب لوگ میری طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔

"میں نذیر کے بھائ کبیر کا دوست ہوں، کبیر کے مجھ پر کچھ احسانات ہیں۔ یہ میں اپنی دوستی کا کچھ حق ادا کرنا چاہتا ہوں۔"

لوگوں نے مجھے اجازت دے دی۔

اپنے ہاتھوں سے اس کی میت اتار کر  لٹا دی۔ اس کے کفن کا منہ ہلکا سا کھول دیا۔ اس کی ٹھنڈی پیشانی پر  ہاتھ رکھ کر اس  کے واسطے سے دعا کی ۔پھر میں قبر سے با ہر آگیا۔ سلیم اور میں خاموش چلتے ہوئے واپس گھر پر آگئے۔

سلیم کی دکان پر تھوڑی دیر کے لئے میں بیٹھ گیا۔ایک عجیب اداسی سی چھائ ہوئ تھی، زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکا،   رہ رہ کے نذیر اور اس کی فیملی کا خیال  آنے لگا ، سوچا کہ اس کی فیملی کو ہی پوچھ لوں، ہوسکتا ہے کسی مدد کی ضرورت ہو۔

"سلیم میں ذرا نذیر کی فیملی سے مل کر آتا ہوں۔" میں نے سلیم سے اجازت چاہی۔

"اچھا جاؤ، تمہیں گھر تو پتہ ہے۔"

سلیم کی دکان سے تھوڑا ہی فاصلہ تھا۔کبیر کے گھر پہنچ کر تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

کچھ دیر بعد دروازہ کھولنے کی آواز آئ ۔  دروازے کی اوٹ سے کسی نے مجھ سے پوچھا

"کون ہیں آپ۔؟"

"میرا نام صفدر ہے اور میں نذیر کے بڑے بھائ کبیر کا دوست ہوں۔کیا تم نذیر کی بیوی ہو؟" یہ سن کر اوٹ سے اس نے اپنا چہرا باہر کیا۔

"ہاں" اس کے الفاظ میں ایک عجیب سا کرب تھا۔  لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی وہ پاگل خانے سے آئ ہو۔ الجھے ہوے بال اور روتے ہوئے چہرہ سے وہ اپنی عمر سے دس سال بڑی لگ رہی تھی۔

"مجھے بڑا افسوس ہے تمہارے شوہر کے انتقال کا۔" میرے یہ کہنے پر اس نے اپنے آپ کو پھر اوٹ کے پیچھے کر لیا۔

"کبیر میرا بہت اچھا دوست تھا، اس کے بڑے احسانات  ہیں مجھ پر،میرا یہ فون نمبر ہے اور اگر تم سمجھ سکتی ہو کہ تمہاری کوئ مدد کرسکتا ہوں تو مجھے ضرور کال کرنا۔" میں نے کاغذ پر اپنے ہوٹل کا فون نمبر اس کو لکھ کر دیا۔

ہاتھ بڑھا کر اں نے فون نمبر لے لیا اور پھر خاموشی سے دروازہ کے پیچھے کھڑی ہوگئ۔شاید میرے جانے کا انتظار کر رہی ہو۔میں نے بھی یہ محسوس کر لیا تھا ۔

"اچھا میں چلتا ہوں۔" یہ کہہ کر میں وہاں سے ہٹ گیا۔

مجھے واپس ٹیکسی تک آنا تھا اور ابھی میں گلی سے نکل ہی رہا تھا کہ مجھے وہی تین لڑکے  آئے جنہوں نے سلیم سے بھتہ مانگا تھا۔

خطرہ کو بھانپ کر میں چوکنا ہو گیا مگر نظریں جھکاے اپنے راستے پر چلتا رہا۔

وہ میرے سے کچھ ہی فاصلے پر ہونگے کہ اچانک وہ مجھ پر جھپٹ پڑے۔لیکن شاید ان کو توقع نہیں تھی کہ میں پہلے ہی سے تیار تھا۔میں نے ایک لات اس کے ماری جو سب سے آگے تھا،  لات اس کے پیٹ کے نیچے لگی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اب کبھی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکے گا۔وہ تو منہ کے بل گر پڑا۔اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر باقی کے  دونوں بوکھلا گئے  اور وہ تھے بھی ذرا کمزور قسم کے۔  دونوں کے سر زور سے آپس میں ٹکرا کر میں  فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔اپنی پوری جان لگا کر میں بھاک رہا تھا۔ ابھی گلی کا آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ مجھے دوسرے کونے سے دو اور لڑکے آتے ہوئے نظر آئے۔ دیکھا تو گلی کے دونوں اطراف سے گھر چکا تھا۔سامنے ہی ایک  گھر کا دروازہ نظر آیا، یہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ اپنی جان بچانے کی خاطر میں گھر میں گھس کیا، کمرے سے بھاگتا ہوا میں صحن میں آگیا ، صحن کے بیچ دو عورتیں چارپائ پر بیٹھی نظر آئں، شاید ایک دوسرے کو کنگھی کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی چیخنے لگیں۔ آئ ایم سوری،  آئ ایم سوری، کہتا ہوا صحن سے گزر کر پچھلا دروازہ کھول کر پتلی گلا میں آگیا۔ مجھے معلوم تھا الٹے ہاتھ کی طرف یہ راستہ مسجد کی گلی میں نکلے گا۔

اب چوہے اور بلی کی دوڑ شروع ہو چکی تھی۔ مسجد کی گلی میں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے ایک اور گھر کا دروازہ کھلا نظر آگیا۔ ادھر بھی کچھ ایسا ہی نظارہ تھا۔ گھر میں داخل ہو تے ہی عورتوں نے چیخنا شروع کر دیا۔ مگر مجھے کسی  کی پرواہ نہیں تھی۔ اس وقت میری زندگی کا مقصد صرف اپنی جان بچانا تھا۔اس گھر سے نکل کر بڑی گلی پر آتے ہی میں نے دیکھا کہ گلی کے کونوں میں پھر کچھ لڑکے کھڑے ہیں،  واپس دوبارہ اسی گھر میں داخل ہو کر پتلی گلی میں واپس آ گیا۔ میں چاہ رہا تھا کسی طرح مسجد کی چھت پر پہنچ جاؤں وہی سب سے محفوظ جگہ لک رہی تھی، باقی گلی میں تو کوئ ایسا مکان نہیں تھا جس کی چھت پر میں چڑہ سکتا۔ گلی میں بھاگتے ہوئے صرف ایک ایسا مکان نظر آیا جو کہ ایک منزلہ تھا، قریب پہنچ کر میں نے ایک جست لگائ اور لپک کر چھت  تک پہنچ گیا۔ شاید کسی نے دیکھا نہیں۔چھت پر چھپ کر لیٹا رہا،اب مجھے اندھیرے کا انتظار تھا۔

نیچے ایک ہنگامہ کھڑا ہو چکا تھا،لوگوں نے موٹر سائکلیں نکال لی تھیں اور  ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑا رہے ہیں۔لگ رہا تھا اب پوری طرح میری ڈھنڈائ شروع ہو چکی ہے۔

مجھے دور  سے گلی کے کونے میں ایک  ٹیکسی نظر آئ۔میرے لئے ایک امید کی کرن تھی۔ کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں یا وہ مجھے دیکھ لے۔اندھیرا اب پھیل چکا تھا اور شاید یہ لوگ بھی  تھک چکے تھے۔ موٹر سائکلیوں کے چکر اب کم ہو رہے تھے۔ مجھے فکر یہ تھی کہ اگر دیر ہوگئ تو یہ ٹیکسی چلی نہ جائے۔

پھر میں نے دیکھا کہ ٹیکسی اسٹارٹ ہو گئ اور اب وہ گلی میں آرہی تھی، معلوم نہیں کہ اس نے مجھے دیکھا یا نہیں، مگر میں نے یہ آخری موقع سمجھ کر چھت پر سے چھلانگ لگا دی۔

ٹیکسی والے نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا، اس نے قریب آکر چیختے ہوئے کہا،" صاحب فوراً اندر آ جائں۔" یہ وہی ٹیکسی ڈرائور تھا۔

فوراً چلتی ہوئ ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اندر آ گیا اور ڈرائیور نے ایکسلریٹر پرپیر  رکھ دیا۔ تیزی سے ہم لوگ اس  گلی سے نکل آئے، میرا جہاں تک خیال تھا کسی نے ہم کو دیکھا نہیں۔ یہ سوچ کر میں نے سکون کا سانس لیا اور ٹیک لگا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ کیا۔ 

ابھی تھوڑی ہی دور تک ہم گئے ہونگے کہ ڈرائیور نے مجھے چونکا دیا،

"صاب لگتا ہے کہ ہمارا پیچھا ہو رہا ہے۔ " زرا فاصلے پر ایک موٹر سائکل قریب آتی نظر آنے لگی۔

ادھر ڈرائور نے بھی اپنی گاڑی تیز کر دی۔گھبرا کر میں بار بار پیچھے دیکھنے لگا۔فاصلہ کم ہو تا جا رہا تھا۔ اتنے میں دیکھا کہ پیچھے بیٹھنے والے نے اپنے ہاتھ کلاشنکوف پکڑی ہوئ۔

" تیز چلاؤ ،دیکھو  ان کے ہاتھوں میں گن ہے۔" گھبرا کر ڈرائیور نے  پورا ایکسلریٹر دبا دیا۔ فاصلہ تھوڑا بڑھ گیا، مگر لگ رہا تھا کہ یہ پیچھا چھوڑنے دالے نہیں ہیں۔

اتنے میں  ٹیکسی آہستہ ہو نے لگی، آگے ٹریفک بھاری ہو رہا  تھا۔

موٹر سايکل اور قریب آنے لگی، جان بچانے کے ليے میں سیٹ پر لیٹ گیا۔ زرا نظریں اٹھا کر دیکھنے پر مجھے موٹر سايکل دروازے کے برابر آتی نظر آئ اور انہوں نے کلاشنکوف اوپر کر لی تھی۔اچانک زہن میں میرے ایک خیال آیا، لیٹے لیٹے ہی میں نے گاڑی کے دروازہ کا ہینڈل اوپر کیا اور ایک لات مار کر دروازہ  کھول دیا۔ موٹر سائکل شاید دروازے کے بہت قریب آچکی تھی۔ دروازے سے ٹکر لگتے ہی وہ سڑک پر پھسل پڑی، اٹھ کر دیکھا تو  وہ دونوں  زمین پر گر پڑے تھے۔ پیچھے سے ایک بس آرہی تھی ، بس شاید رک نہ سکی، مجھے صرف اتنا نظر آیا کہ بس کے پہیے دونوں کے جسموں پر سے گزر گئے تھے۔ بس ڈرائور کے زور سے بریک لگانے پر اور بھی گاڑیوں نے بریک لگانا شروع کر دیا تھا۔ پتہ نہیں کتنی گاڑیوں کی آپس میں ٹکریں  ہوئ، مجھے صرف اتنا معلوم  تھا کہ وہ دونوں تو  جہنم رسید ہو چکے تھے،ہم دونوں  نے سکون کا سانس لیا۔ مگر کھبراہٹ سے میرا پورا بدن پسینے میں شرابور، تھا۔ میں نے جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا اور ڈرائور کے ہاتھ میں دے دئے۔"

"یہ لو، اور تمہارا بہت بہت شکریہ، آج تمہاری وجہ سے میری جان بچ گئ۔"

"صاحب آپ نے تو آج کمال کر دیا، شیطانوں کو جہنم کا راستہ دکھایا دیا۔" ڈرائور بھی بڑا خوش تھا۔

"تمہارا نام کیا ہے۔"

"عاصف۔"

"یہ نام اب زندگی بھر نہیں بھولونگا۔میں تمہارا بہت ممنون ہوں۔" عاصف کے چہرے پر ایک تمکنت مسکراہٹ آگئ۔

"مجھےاب  کسی ریسٹورانٹ کے سامنے اتار دو۔"

یہ سن کر تھوڑے ہی فاصلے پر اس نے گاڑی روکی اور میں گاڑی سے اتر آیا۔  دراصل میرے ہاتھ  پیر قابو میں نہیں تھے اور مجھے کسی جگہ  بیٹھ کر کچھ  پینا تھا۔

"کیا مجھے کل ہوٹل سے اٹھا سکتے ہو؟" گاڑی میں اترنے سے پہلے میں نے اس سے سوال کیا۔

"ہاں ہاں ضرور۔"

 یہ کہہ کر  گاڑی سے اترآیا اور ریسٹورنٹ  کے اندر آکر  ایک سیٹ پر بیٹھ کر اپنا سر سیٹ پر ٹکا دیا۔ آج کا دن مجھے زندگی بھر یاد رہے گا۔ موت کو اس سے پہلے اتنا قریب کبھی نہیں دیکھا تھا۔

"آپ ٹھنڈا پیئنگے یا گرم؟" ویٹر نے مجھے حیران کن نظروں سے دیکھتے ہوے پو چھا۔

"بس ایک ٹھنڈا لے آؤ۔" یہ کہہ کر  پھر اپنا سر سیٹ پر ٹکا دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد حالت سنبھلی اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر ہوٹل آ گیا۔کمرے میں آنے تک تقریباً ایک بے ہوشی کی سی حالت ہو گئ تھی۔بستر پر گرتے ہی اسی بے ہوشی کی حالت میں شاید نیند آگئ۔

تقریباً رات کے تیسرے پہر اچانک میری آنکھ کھلی۔ مجھے ایسے لگا جیسے کمرے میں کوئ موجود ہے۔گھبرا کر میں نے لائٹ آن کی۔ بے اختیار ایک چیخ سی نکل گئ۔ کرسی پر نذیر بیٹھا ہوا تھا۔ مگر مجھے ایسے لگا جیسے اس کے چہرے پر سکون آگیا ہو۔ وہ تھوڑی دیر  میری طرف دیکھتا رہا، پھر ایک خاموش سی مسکراہٹ دی اور اٹھ کر کمرے سے اس طرح چلا گیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔

مجھے اس کے بعد نیند نہیں آئ۔

 


                                                ۳

 

صبح ہوتے ہی میں نے سوچاپولیس اسٹیشن جا کر کچھ معلومات حاصل کروں، دیکھوں کہ  پولیس نے کیا کیا۔

تیار ہوکر ہوٹل کے باہر آیا تو دیکھا کہ  عاصف ٹیکسی میں ٹانگ پسارے اخبار پڑھ رہا ہے۔"

"کیا کا فی دیر سے ہو؟" ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔

"نہیں، نہیں،  آرام ہی کر رہا تھا۔" اس نے اخبار رکھتے ہوے کہا۔

"مجھے پولیس اسٹیشن لے کر چلو۔"

عاصف نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم کچھ ہی دیر بعد پولیس اسٹیشن آگئے۔

تھانہ کے باہر گاڑی رکوا کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر  ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ دروازے کے ساتھ ہی  ایک  کانسٹبل اسٹول پر بیٹھاہے۔

"کیا کام ہے آپ کو؟"  اس نے ایک تحمکانہ انداز میں مجھ سے پوچھا،

"میں نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بزھاتے ہوے کہاکہ میں فارن آفس سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک تفتیش کے سلسلے میں مجھےانسپکٹر  صاحب سے بات کرنی ہے۔"

"آپ یہیں کھڑے رہیں، صاحب کو بتاتا ہوں۔"  کارڈ کو حیرانی سے دیکھتا ہوا   اندر لے کر  چلا گیا۔

 میں نے ہال کے چاروں طرف ایک اچٹتی سی نظر ڈالی، تھانہ کے اندر کا ماحول پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہا تھا،  دیسے لگ رہا تھا کام کچھ زیادہ  نہیں۔ ایک کاونٹر کے پیچھے تین وردی میں ملبوس  کسی بات پر بحث  کر رہے تھے اور دوسرے کونے میں ایک ٹیبل جمی تھی جس پر روپیوں کا ڈھیر تھا ، ٹیبل کے گرد دو پولیس والے اور دو بغیر وردی کے،  تاش کی بازی میں محو تھے، ایک لمحے کے لیے جی چاہا ان کے ساتھ جا کر بیٹھ جاوں کہ آواز آئ ،

" اندر جا سکتے ہیں آپ۔"

کمرے میں داخل ہونے پر سامنے ٹیبل کے پیچھے  بیٹھے ہوے انسپکٹر  پر نظرپزی،  ابھی تک کارڈ کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا،

"کیا کام ہے آپ کو؟"  اس نے کارڈ سے نظر ہٹاے بغیر مجھ سے ایک کھردرے لہجے میں مخاطب ہو تے ہوے کہا۔

"انسپلٹر نعیم، میرا نام صفدر ہے اور مجھے کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں،" میں نے ہاتھ ملانے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہوے کہا۔ٹیبل پر اس کے نام کی تختی رکھی ہوی تھی۔

"تشریف رکھیں۔" ہاتھ ملا کر اس نے کرسی پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا اور پھر کارڈ کو غور سے دیکھنے لگا۔

"مجھے کل والی بوری کی لاش کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں۔" کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی میں نے اس سے سوال کر ڈالا۔

 اس غیر متوقع سوال پر  وہ چونک پڑا،"بوری کی لاش، کیا تعلق ہے آپ کا اس سے؟ کون ہیں آپ؟"

"مجھے معلوم کرنا ہے کہ اس بارے میں کیا پروگرس ہوئ ہے، کیا کوئ پکڑا گیا؟"

"کون ہیں آپ اور یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟"

میں نے دیکھا کہ وہ تھوڑا مرعوب ہو چکا تھا اور اس کا لہجہ دھیما پڑ گیا تھا۔

"وہ لاش میرے ایک دوست کے بھائ کی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ تفتیش میں کوئ کمی نہ ہواور فوراً قاتلوں کو پکڑا جاے۔ آپ نے اس بارے میں اب تک کیا کیا ہے؟"

میرے اس ڈایریکٹ سوال پر وہ سٹپٹا سا گیا تھا۔" ہم کوشش کر رہے ہیں اور دو بندوں کو لگا یا ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر کتنا لوڈ ہے، مگر آپ فکر نہ کریں  یہ کام ہم جلد ہی ختم کردیں گے۔"

 اس نے مجھے اطمینان دلانے کی کوشش کی اور پھر کارذ کو پڑھنے لگا، شاید یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ میری حیثیت کیا ہے۔

"یہ آپ کس محکمہ کے پروگرام کنسلٹنٹ ہیں؟ "

وہ ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا کہ مجھ سے کس حد تک مرعوب ہو۔

"کیا میں ایف آئ آر دیکھ سکتا ہوں؟" میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوے پوچھا۔

"ہاں ہاں ضرور، میں ابھی فائل منگاتا ہوں۔"

 یہ کہہ کر اس نے زور سے آواز دی،" شوکت اندر آنا۔"

فوراً دروازہ کھلا اور وہی کانسٹیبل اندر، "جی صاب۔"

"ذرا  نذیر کی فائل تو لے کر آنا اور دو چائے بھجا دو۔ "

اب مجھے گھبراہٹ ہونے لگی کہ وہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو گیا تھا اور اگر اسے حقیقت پتہ چل جاے تو شاید یہی چاے میرے منہ پر مار دے، یہ پولیس والے خواہ مخواہ کسی پر مہربان تو ہوتے نہیں ہیں۔ یہ ضرور سمجھ رہا ہو گا کہ میں کوئ بہت اہم محکمہ سے ہوں۔ 

میں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوے جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوے کہا،"یہ میرا ذاتی کام ہے" اور ٹیبل پر رکھا ہوا کارڈ واپس لے لیا۔

"ارے اس کی کیا ضرورت ہے، " اس نے جھجکتے ہوے  ہاتھ بڑھا کر پیسے لیے اور جیب میں ڈال لیے۔لیکن میں نے دیکھا کہ اس کی حیرانی  اور بڑھ گئی تھی۔

"میں اس جیسے پانچ نوٹ اور دونگا جب ان قاتلوں کا پتہ چل جاے گا۔" میں نے اس کو اطمینان دلاتے ہوے کہا۔

"تو کیا آپ فارن آفس سے نہیں ہیں؟ "

"نہیں، میرا تو کوئ تعلق نہیں فارن آفس سے۔"

"تو آپ نے  شوکت  سے  یہ کیوں کہا کہ فارن آفس سے آے ہیں؟"

" میں نے تو کوئ فارن آفس کا ذکر نہیں کیا، صرف اتنا کہا کہ فاراً سے ملنا ہے۔آیا تو میں  امریکا سے ہوں، سوچا تھا کہ  کچھ اچھا وقت گذار لونگا، دوستوں سے ملنے کی  خواہش  میں گلی سے گزر رہا تھا کہ بوری میں لاش  نظر آگئ۔"  میں نے اس کی تسلی کی خاطر ساری بات بتادی۔

اس کے چہرے پر ایک اطمینان سا آ چکا تھا۔

"تو تمہارا فارن آفس سے تعلق نہیں؟ " اس کے لہجے میں دوبارہ کرختگی آ گئی تھی۔

"نہیں، اور نا ہی میں گورمنٹ کا ملازم ہوں۔ مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم قاتلوں کو پکڑوگے تو ایک بہت بڑا انعام ملے گا۔ "

اس کی توجہ برقرار رکھنے کے لئے انعام کی لالچ ضروری تھی۔

"ایسی تو کئ بوریوں میں لاشیں گر چکی ہیں، اس لاش سے اتنی دلچسپی کیوں؟ " اس کی ابھی تک سمجھ میں یہہ بات نہیں آئ کہ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہوں۔

"میں نے کہا نا کہ یہ میرے دوست کا بھائ تھا، کچھ پرانے احسانات تھے جس کا بدلا چکانا چاہتا ہوں۔"

اتنے میں شوکت فائل لے کر اندر داخل ہو گیا۔ "یہ لیں صاب"، اس نے فائل ٹیبل پر رکھتے ہوے ایک نظر میری طرف دیکھتے ہوے کہا۔

"سب ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو"۔

 مجھ جیسے آدمی سے شايد اس کا واسطہ پہلی دفعہ پڑا تھا کہ کیس سے کوئ تعلق بھی نہ ہو اور اتنی دلچسپی ظاہر کرے۔

"تم جیسے  آدمی کو میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں، اگر تم امریکا سے آئے ہو تو میرا مشورہ یہ ہے کہ فوراً سے پیشتر واپس چلے جاؤ ، یہ ایک بہت خطرناک گیم بھی ہو سکتا ہے۔"

"چلا تو میں جاؤنگا، لیکن یہ دیکھ رہا ہوں کہ لوگ کتنے بے حس ہو گئے ہیں، بوریوں میں لاشیں بھر دی جاتی ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں۔"

"لگتا ایسا ہے کہ تم کچھ زیادہ عرصہ کے بعد یہاں پر آے ہو۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، اگر آدمی بے حس نہ بنے تو خودکشی کرنی پڑ جاے۔ "

اس کے فلسفے کو نظر انداز کرکے میں نے رپورٹ اٹھالی اور ورق پلٹنے لگا۔ 

لگتا تھا کچھ کام ہوا ہے، آدھے صفحے پر قتل کی تفصیل اور پھر کچھ کوائف، پیشے کے طور پر زاتی  ڈرایور اور شائد اس ٍگھر کا پتہ تھا  جہاں وہ کام کرتا تھا۔ بیوی اور  بچی کا نام بھی تھا۔

میں نے رپورٹ پر سرسری نظر ڈالی اور اس کو واپس کردی۔

"میں سترہ سال کے بعد یہاں پر آیا ہوں،لکی  سنیما کے پیچھے ہم رہتے تھے، نذیر کے بھائ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں، اسی کی بدولت میں اس قابل ہوا ہوں کے امریکا میں بیٹھ کر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہوں، ورنہ آج میری بھی لاش بوری میں بند ہو چکی ہوتی۔ یہ کیا ہو گیا یہاں پر، حالات بد سے بد تر ہو تے جا رہے ہیں اور کوئ پوچھنے والا نہیں۔ "

"ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں رہی، لوگ زندہ ہیں کیونکہ وہ پیدا ہو چکے ہیں، وہ زمانہ اور تھا جب تم یہاں رہتے تھے، اب تو ہر بات پر لوگ کلاشنکوف نکال لیتے ہیں، سب نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔"

"لیکن تم تو پولیس ہو ،کیا تم  پر یہ زمہ داری نہیں۔"  میں نے ہمت کرکے اس سے پوچھ ہی لیا۔

"کیا چاہتے ہو، پانچ ہزار کی تنخواہ میں سینا تان کے کھڑا ہو جاوں اور وہ بھی ان لوگوں کی خاطر جو ڈاکو   کے مر نے کو شہید کہیں اور پولیں والے کو ہلاک،  یہ قوم اتنی معصوم نہیں کہ جتنا بتایا جاتا ہے۔"

میرے پاس اس کا کوئ جواب نہیں تھا، اگر یہ قوم معصوم نہیں تو یہ پولیس والے بھی معصوم نہیں، مصلحتاً میں نے بات بدل کر اس سے پوچھا کہ" کچھ اندازہ  ہے یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے؟"

"تنظیم کا چکر بھی ہو سکتا ہے اور زاتی دشمنی بھی  اور ا لله کی مرذی  بھی، مگر جو کچھ بھی ہو خودکشی نہیں ہو سکتی۔  " اس نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں جواب دیا۔

"واقعی تم بالکل فٹ ہو اس جاب کے لئے ، شرلاک ہومز  بھی شرمندہ ہو رہا ہو گا اپنی قبر میں۔" یہ کہنے کے بعد اب میرا بیٹھنا فضول تھا۔

"مجھے اب چلنا  چاہیے "، یہ کہہ کر میں کرسی سے  اٹھ گیا۔

"ارے بیٹھو چائے تو پی کر جاو، میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔" اس نے اپنے لہجے کو دوستانہ بنا کر اسرارکیا۔

"اگر سیریس ہو تو میں بات آگے بڑھاتا ہوں ورنہ میرا بھی وقت اتنا فالتو نہیں۔"

"آئ ایم سوری، آئ ایم ریئلی سوری، پلیز، بیٹھو، میں سیریسلی بات کروں گا۔"   اس کے لہجے میں التجا دیکھ کر میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

"ہم پوری کوشش کر رہے ہیں معاملے کی طح تک پہنچنے کی لیکن اس کے ليے وقت لگے گا،اطمینان رکھو، اچھا  ذرا اپنے بارے میں بھی تو  بتاو، کہاں رہتے ہو، کیا کرتے ہو؟"  اس  کا لہجہ اب کافی دوستانہ ہو گیا تھا۔اتنے میں چائے بھی آگئ تھی۔

ّ"شکاگو میں رہتا ہوں، میرا   خود کا بزنس ہے۔"

"تو یہاں کیا بزنس کے ليے آے ہو؟ "

"نہیں، بزنس سے دور بھاگنے کے لئے،  یہاں آیا تھا کچھ پرانے وقتوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے ، لیکن ابھی تک تو ہر قدم پر کوفت اٹھانی پڑی ہے۔"

"کیا رشتہ داروں نے کچھ کہہ دیا؟"

"میرا یہاں کوئ رشتہ دار نہیں۔"

"کہاں ٹھہرے ہو؟"

میں نے اس کو ہوٹل کا پتہ بتایا۔

"اٍگر بزنس کے ليے نہیں آئے ہو اور نہ ہی کوئ رشتہ دار ہے تو کیا دماغ میں پھوڑا اٹھا ہے جو یہاں آے ہو؟"

"ہاں دماغ میں ایک پھوڑا ہی تھا جس کی وجہ سے یہاں آیا ہوں۔" میں نے چاے کے گھونٹ لیتے ہوئے اس کو اصلی وجہ بتانے کی کوشش کی۔

"چلو اب آگئے ہو تو کچھ اچھا وقت گزار لو۔" اس کو میری اصلی بات شايد سمجھ میں نہیں آئ۔

"اچھا اب میں چلتا ہوں۔"  یہہ کہہ کر میں نے چائے ختم کی اور اٹھنے لگا۔

"میں ایک بات بتاوں، ہم پولیس والے اتنے برے نہیں ہیں۔ اگر تم پیسے نا بھی دیتے تو بھی ہم ان قاتلوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے،ہمیں تو یہ جگہ بہتر بنانی ہی ہے، رہنا تو آخر ہم کو یہیں ہے۔"

"چلو مجھے خوشی ہوئ یہ سن کر۔"یہ کہہ کر میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے کچھ اطمینان  بھی ہوا اس کی باتوں سے۔نکلنے سے پہلے اس کا کارڈ اٹھا کر جیب میں رکھ لیا۔

باہر آکر  میں واپس ٹیکسی میں بیٹھ گیا، میں نے  نذیر کے باس  کا پتہ فائل میں دیکھ کر زہن میں رکھ لیا تھا، سوچا اس سے مل کر کچھ معلومات حاصل کرونگا اور اگر وہ شریف آدمی ہوا تو نذیر کی بیوی کو کچھ پیسے دلواؤنگا۔ویسے کوئ امید نہیں تھی، یہاں کے امیروں سے کوئ بہت زیادہ توقع تو کر نہیس سکتا تھا، مجھے اب  اس کی بچی پر بھی رحم آرہا تھا، پتہ نہیں کیسے کٹےگا ا س کا وقت۔ عاصف کو نذیر کے باس کا پتہ بتا کر  میں نے پچھلی سیٹ پر ہاتھ پسار  دیے۔

راستہ  گزرنے لگا  اور میرے زہن میں پھر کبیر کا خیال آنے لگا ، کتنی جوان موت ہوئ ہوگی اسکی، اس کے ماں باپ تو بڑا روے ہونگے،  لاپرواہ تو تھا وہ، بڑھالی ہو گی اس نے اپنی ٹی بی،  اسپتال بھی نہیں گیا ہوگا، شاید  امید  لگائے بیٹھا ہوگا کہ میں بلالونگا اس کو امریکا، کاش کہ میں نے اس کو خط ہی  لگ دیا ہوتا،  جھوٹ موٹ کا کہہ ہی دیا ہوتا  یا بتا ہی دیتا کہ مجھ سے امید نا رکھنا ،مجھ پر اتنا بڑا بوجھ کیوں۔ کیوں اس نے زندہ رہنا چھوڑ دیا،  کیا اتنے بڑے شہر میں کسی اور کو اس کا خیال نہیں آیا،  کتنے وحشی ہیں یہاں کے لوگ، موت کو اتنا ارزاں کر دیا۔

 خیالات میں وقت کٹتا رہا، ایک لمحے کے لیے ایسے لگا جیسے وقت واپس لوٹ آیا ہو،  کبیر کا مسکراتا ہوا چہرا  اور اس کی آنکھوں کی چمک زہن کے کونوں سے جھانک رہی تھی۔ کتنی امید دلایا کرتا تھا وہ مجھکو۔ اس نے تو دوستی کا حق ادا کردیا تھا، یہ میں ہی تھا جس نے واپس کچھ نہیں دیا۔کتنا خود غرص تھا میں، اپنی ذات کے سوا   کچھ اور سوچا ہی نہیں۔

"صاحب اسی گلی میں ہوگا مکان" اچانک عاصف کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔

سامنے مکان پر 'فور سیل' کی سائن لگی تھی، پتہ کے مطابق یہی مکان تھا۔

ٹیکسی سے اتر کر اور گیٹ کی بیل دبا کر مکان کے اطراف دیکھنے لگا۔ کا فی خوبصورت مکان تھا، لگتا تھا لان وغیرہ پر بھی کافی محنت کی ہے۔

اتنے میں گیٹ سے چوکیدار نے سر باہر نکا لا، "کیا کام ہے آپ کو؟"

"کیا یہ مکان بکنے کے ليے ہے؟" میں نے سیل کی سائن کی  طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔

"ہاں مگر صاحب نہیں ہیں، شام چھ بجے کے بعد آنا" اس مختصر سے جواب کے بعد اس نے فوراً گیٹ بند کرلیا۔

اس کی بد اخلاخی پر غصہ تو بہت آیا مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔

واپس ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ چھ بجے تک وقت کس طرح کاٹوں گا کہ   اتنے میں بھوک  ستانے لگی۔

"کسی اچھے ریسٹورنٹ لے چلو"، عاصف سے کہہ کر میں پھر نذیر کے بارے میں سوچنے لگا۔

تھوڑی ہی دور جا کر عاصف نے گاڑی روک دی ، "صاب یہ سامنے والے ریسٹورنٹ کا کھانا برا نہیں"۔

چلو تم بھی آو۔ میں نے اس کو بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دے دی۔ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد وہ گاڑی سے اتر آیا۔

ریسٹورانٹ کی ٹیبل پر بیٹھ کر میں نے عاصف ے  کہا کہ وہ خود ہی آرڈر دے دے، مجھے تو کچھ پتا نہیں کہ کیا اچھا کھانا ہوگا یہاں پر۔

اس نے ويٹر کو بلا کر دو آلو گوشت کا آرڈر دے دیا۔

"آلو گوشت،کیا اس کے سوا اور کوئ کھانا نہیں؟"

میری حیرانی پر اس کو ہنسی آگئ، "صرف آلو گوشت ہی ہے جو تازہ ہوگا، باقی سب چیزیں پرانی ہوتی ہیں یہاں۔" اس کے سمجھانے پر میں چپ ہو گیا۔

"اپنے بارے میں بھی تو کچھ بتاؤ، کیاشادی ہوگئ تمہاری؟"، میں نے اس کی ہنسی کو نظرانداز کر کے ایک اور سوال کردیا۔

"انشاالله، بہت جلد ہو جاےگی، میری ہونے والی بیوی نے ایک  شرط رکھی ہے جو مجھے پوری کرنی ہے"۔

"وہ کیا؟" اب میرا تجسس بڑھ گیا۔

"اس نے کہا ہے کہ اپنی عادتیں ٹھیک کروں پہلے۔اور اب الله کے فضل سے میں پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہوں۔"

"بے وقوف ہو تم بہت، بجائے اس  کے کہ اس کی عادتیں ٹھیک کرواتے اپنی عادتیں ٹھیک کر رہے ہو،  خیر تمہاری مرضی۔"

اتنے میں ويٹر کھانا لے آیا۔

ہم دونوں کھانا کھاتے رہے اور آصف اپنے بارے میں بتاتا رہا۔اس نے بی ایس سی کر لیا تھا  اور ایم ایس سی کا ارادہ تھا۔

"ٹیکسی کیوں چلاتے ہو تم، اگر اتنے تعلیم یافتہ ہو تو؟"

"کیوں، ٹیکسی چلانے میں کیا برائ ہے؟ عزت کی کماتا ہوں،  کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ ایک صاحب کے یہاں کام کرتا تھا، سمجھتے تھے کہ صرف انکی غلامی کے ليے پیدا ہوا ہوں میں، جب جی چاہا تھپڑ  رسید کر دیتے تہے، مہینے کے آخیر میں تنخواہ دیتے تھے تو ان کے ہاتھ کانپتے تھے، اب میں عزت کی روٹی کماتا ہوں۔"

اس کے اس جواب سے مجھے شرمندگی سی ہوئ۔

کھانا ختم کرنے کے بعد ہم ریسٹورانٹ سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ مجھے اچانک خیال آیا ، کیوں نا نعیم کو اپنے ساتھ لے لیا جائے، یہ سوچ کر میں نے آصف سے کہا کہ مجھے دوبارہ تھانے لے چلو۔

واپس تھانے پہنچا تو  دیکھا کہ ماحول بالکل  ویسا ہی  تھا جیسا چھوڑ کر گیا تھا۔ وہی چاروں اپنے تاش میں مگن اور ٹیبل پر  روپیوں کا ڈھیر۔

اسٹول پر بیٹھے شوکت سے میں نے اجازت مانگی کہ مجھے صاحب سے ایک چھوٹی سی بات کرنی،  اس نے اجازت دے دی۔

آفس میں داخل ہو ا ہی تھا کہ  نعیم نے حیرانی سے میری طرف دیکھا، "تم پھر آگئے؟"

میں نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوے کرسی گھسیٹی اور اور اس کو بتانے لگا کہ نذیر کا باس اپنا گھر خالی کر رہا ہے اور اس نے بیچنے کی سائن لگا دی ہے۔

"یہ تو ہمیں پہلے سے پتہ ہے، وہ مکان تو کافی دنوں سے سیل پر ہے اور جہاں تک نذیر کے باس کا تعلق ہے اس کا بیان وہاں کی پولیس لے چکی ہے۔"

" مگر مجھے کچھ اور بھی پوچھنا ہے۔"

"وہ کیا؟"

"یہ تو میں اس سے بات کرنے کے بعد ہی بتا سکتا ہوں کہ کیا پوچھنا ہے،  تم اور میں چلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مکان ہم خریدنا چاہتے، پھر دیکھینگے کیا ہوتا۔"

"لگتا ہے تم نے کچھ زیادہ ہی جاسوسی ناولیں پڑھ لی ہیں، ویسے چلو چلنے میں کوئ حرج نہیں مجھے بھی اس سے کچھ پوچھنا تھا۔" اس کی رضامندی پر میں نے کہا کہ ابھی ایک گھنٹہ ہے وہ چھ بجے شام کو آئیگا۔

"یہ تو اور بھی اچھا ہوا، مجھے ذرا کچھ کام ختم کرنا ہے اور گھر جا کر کپڑے بھی بدلنا ہے۔ تم  چاہو تو یہیں بیٹھ سکتے ہو، کیا چائے پیو گے؟"

اس نے اخلاقاً پوچھ لیا۔

میں نے سوچا کہ ایک ہزار میں سے کچھ تو واپس آئے، اس ليے فوراً ہاں بھر دی۔

نعیم اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں نے  ٹیبل  پر پڑا میگزیں اٹھا لیا۔

ورقوں کو پلٹتے ہوے یوں ہی مجھے خیال آیا کہ اس سے باہر ٹیبل پر جمے ہوئے جوے کے بارے میں پوچھ لوں،

"یہ تمہارے تھانے کے اندر  ٹیبل پر کیا ہورہا ہے؟"

"جوا"، اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔

میں نے سٹپٹا کر پو چھا، "تھانے کے اندر؟"

"باں، باہر پولیس پکز لیتی ہے،"  اس کے بےساختہ جواب پر میری ہنسی چھوٹ گئ۔

تم کو معلوم بھی ہے ، اس ٹیبل پر کون ہے؟"، نعیم نے سمجھانے والے انداز میں مجھ سے پوچھا۔

"کون؟"

"یہ دو جو سادہ لباس والے ہیں، یہ یہاں کے دو مشہور اخباروں کے رپورٹر ہیں، ان کا بھتہ بندھا ہوا ہے یہاں کے لوکل لیذروں سے۔ یہ لیڈریہاں پر دو چار بیان داغیں گے اور یہ رپورٹر بیان لے کر چلے جائنگے، ان کا کام ختم۔"

"لگتا ہے،بڑی آرام کی نوکری ہے ان کی۔" ایک حسد والے انداز میں میں نے کہا۔

"اور کمائ بھی خوب ہے۔"

"کیا تمہیں بھی اپنا بیان چھپوانا ہے؟" نعیم نے ازراہ تجسس مجھ سے پوچھا۔

"نہیں، نا میری خواہش ہے اور نا ہی میں چاہونگا کہ ان جیسے اخبارات میں میرا بیان چھپے،یہ تو  ہر کسی کے منہ سے نکلا ہوا فضلہ چھاپ دیتے ہیں۔"، میرے الفاظ سے طنز صاف ظاہر تھا۔

میں نے دیکھا کہ میرے یہ کہنے سے نعیم کو گونا سی مسرت ہوئ۔ وہ مسکرا کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

تھوڑی دیر میں اس کا کام ختم ہوگیا اور ہم تھانے سے باہر نکل آے۔

باہر نکل کر میں نے اسے مشورہ دیا کہ ہمیں ٹیکسی میں مکان دیکھنے جانا چاہیے اس لیے وہ  اپنی گاڑی گھر چھوڑ کر میرے ساتھ ٹیکسی میں چلے۔

"اچھا مگر تھوڑی دیر کے لیے گھر پر رکنا ہے، کپڑے بدل کر پھر چلونگا"۔

اس نے عاصف  کو گھر کا پتہ بھی بتاد یا کہ اگر  ٹریفک میں پیچھے رہ جاےتو خود ہی گھر پہنچ جاے۔

ہم دونوں تقریباً ساتھ ساتھ ہی گھر پہنچ گئے تھے،

"اندر آجاؤ۔" نعیم  نے گیٹ میں داخل ہوتے ہوے مجھ سے  کہا۔

تھوڑی سی جھجک کے بعد میں  گاڑی سے اتر  کر اس کے ساتھ گیٹ میں داخل ہو گیا۔

صاف ستھرا سا مکان تھا،گیٹ کے اندر آتے ہی دو چھوٹے بچے ، "ابو آگئے، ابوآگئے" کی چیخ مارتے ہوے باہر  آے لیکن مجھے دیکھتے ہی فوراًپلٹ کر  اندر چلے گئے۔

"حمید، نازیہ ادھر آو، انکل کو سلام کرو۔ " حمید نے ان کو واپس بلانے کی کوشش کی۔

دونوں خوبصورت سے بچے تھے، اتنے میں اس کی بیوی بھی باہر آگئ۔کافی جاذب نظر تھی۔ اس کی فیملی دیکھ کر مجھے رشک آنے لگا۔

نعیم نے اپنی بیوی سے میرا تعارف ،

"یہ ہیں  صفدر صاحب، جاسوس۔" نعیم کی بیوی ہنسنے لگی۔

 میں تھوڑا  جھینپ سا گیا۔ دونوں  مجھے ڈرایئنگ روم میں بٹھا کر اندر چلے  گئے۔

میری توجہ بچوں کی طرف ہوگئ تھی، وہ میرا انٹرویو لینے لگے اور میں انکا۔جو بات مجھے پتہ چلی وہ یہ تھی حمید اور نازیہ دونوں کراٹے کے ماہر ہیں اور حمید کو اب بلیک بیلٹ مل چکی ہے۔

اتنے میں چائے بھی آگئ،  میں ان بچوں کی باتوں سے محضوظ ہو رہا تھا کہ نعیم تیار ہو کر باہر نکل آیا۔

میں نے بچوں کو خدا حافظ کہا اور دونوں  کے ہاتھوں  میں سو سو روپے کے دو نوٹ رکھ دیئے۔

"اس کی کوئ ضرورت نہیں ہے،پلیز۔" نعیم اور اس کی بیوی نے ایک ساتھ کہا اور  بچوں کے ہاتھ سے پیسے لے کر مجھے واپس کرنے کی کوشش کی۔

"یہ میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں اور اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کچھ کھلونے لاتا۔"  میرے اصرار پر ان کو بچوں کو  پیسے  واپس دینے پڑے۔

میں نے اس کی بیوی کو چاے کا شکریہ  ادا کیا اور ہم دونوں  باہر آگئے۔

 ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر ہم دونوں بیٹھ گئے تھے۔

"عاصف،ہمیں اسی مکان پر جانا ہے۔" یہ سن کر عاصف نے  گاڑی اسٹارٹ کردی۔

میں نے ایک نظر نعیم کی طرف ڈالی۔ وردی کے بغیر وہ کوئ اور ہی لگ رہا تھا۔

"ایک بات کہوں۔"

"کیا؟"

وردی کے بغیر تو تم ایک اچھے بھلے انسان لگتے ہو۔"

"کیا مطلب؟ کیا وردی میں جانور لگتا ہوں؟" ذرا ناراض ہو کر اس نے کہا۔

"نہیں، نہیں، میرا مطلب ہے صرف ایک کارٹون لگتے ہو۔" میں نے ہنس کر اس کو اور چھیڑ دیا۔

"معلوم ہے اس وردی کا کتنا رعب ہے؟"

"ہاں یہ تو مجھے دیکھ کر ہی پتہ چل گیا تھا جس طرح تم اپنی  بیوی کے آگے گھگیا رہے تھے۔" اس بات پر نعیم کو ہنسی آگئ۔

"ویسے ایک بات بتاوں،تم بہت  خوش قسمت ہو ، بڑی پیاری فیملی ہی تمہاری، اتنے پیارے بچے ہیں۔"، یہ سن کر نعیم کے چہرے پر ایک خوشی کی لہر سی دوڑ گئ تھی۔

"میں بہت مطمعین ہوں اپنی زندگی سے۔سلمہ نے زندگی کے ہر موڑ پر میرا ساتھ دیاہے، میری ساری خوشیاں اسی کی بدولت ہیں"۔ اس کے الفاظ میں بڑی تمکنت تھی۔شاید وہ مجھے بتانا چاہ رہا  تھا کہ اپنے طور پر وہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہے۔

"اچھا، ایک سچ سچ بات بتاؤ، تم یہاں آے کس ليے ہو۔" نعیم نے اچانک  مجھ سے واپس سوال کردیا۔

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے کہا "اگر میں تمہیں یہ بتاوں کہ میں کس لیے آیا ہوں تو کیا تم میری مدد کروگے؟"، میں نے سوچٰا کہ مدد لینے میں کیا برائ ہے ۔  

"بتاؤ کیا؟"

"اور اگر مدد کے لیے تیار ہو تو انعام بھی ملے گا۔" الفاظ میں وزن ڈالنے کے لیے میں نے انعام کا بھی  اضافہ کردیا۔

"ہم پولیں والوں کو انعام بہت پسند آتا ہے، بولو کیا کام ہے؟"۔ اس  کی دلچسپی اور بڑھ گئ تھی۔

"مجھے ایک لڑکی کا پتہ معلوم کروانا ہے۔" میں نے یہ سوچ کر بتا دیا کہ اعتماد تو کر نا ہی پڑے گا۔

نعیم کا منہ حیرت سے کھل گیا، "کچھ اتا پتا بھی ہے اس کا؟"

میں نے جیب سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کے پیچھے نام، کالج کا نام اور سن لکھ کر اسے دے دیا۔

"بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا"۔

اس نے کارڈ لے کر نام پڑھنا شروع کردیا۔

"صنوب!" یہ کیسا نام رکھا ہے۔اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔

"یہ سوال اس کے باپ سے کرنا، نام میں نے نہیں رکھا، مدد کرسکتے ہو تو کردو  ورنہ چھوڑ دو"۔ مجھے  اس کا مذاق اڑانا پسند نہیں آیا تھا۔

"ارے تم تو ناراض ہو رہے ہو، نام میں کیا رکھا ہے، اگر کہو تو ہم  ایشوریہ کو تمہارے قدموں میں لاکر ذال دیں، تم نے بھی نام کی فکر کری۔" تھوڑی بےیقینی کے ساتھ میں نے  اس کے چہرے کو دیکھا، پھر  کہا۔

"ایشوریہ کا کام بعد میں کرنا، پہلے یہ کام کردو۔"

نعیم کے چہرے پر ہنسی آگئ اور وہ کارڈ کو غور سے پڑھنے لگا۔

"ایک بات پوچھوں؟"، نعیم نے سوالیہ انداز میں مجھ سے کہا۔

"کیا؟"

"تم تو  کسی لڑکی کا کہہ رہے تھے ۔"

"ہاں تو"

"تو کیا اب  یہ عورت نہیں ہو گئ ہونگی، اس چیز کو سترا سال ہو چکے ہیں"۔ اس کے الفاظ میں ایک شرارت سی تھی۔

"کیا مطلب؟"۔ میں نے زرا غصہ کے انداز میں اس سے وضاحت چاہی۔

"میرا مطلب ہے اب تک وہ مسز نہیں ہو گئ ہونگی، یعنی اب  ان کے مسٹر بھی ہونگے۔" اس کی شرارت کی چبھن اور بڑھ گئ تھی۔

"زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، تم کو پیسہ دیا جا رہا لڑکی کا پتہ معلوم کرنے کا، اور اس سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔" مجھے اس کو سمجھانا پڑا۔

"اچھا ناراض نہ ہو، جتنا کہا ہے اتنا ہی ہو گا۔" اس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

"ویسے اگر تم چاہو تو مسٹرکی بتیسی باہر کروادیں؟"، اس نے  ایک اور چوٹ ماری۔

"نہیں یہ اخلاق سے گری ہوئ حرکت ہوگی۔" میں نے اس کو اس طرح منع کیا جیسے واقعی وہ یہ حرکت کرنے والا ہو۔

تھوڑا سوچنے کے بعد میں نے اس کہا،"ویسے اگر ایسا ہوسکے تو اس کا انعام الگ سے ہوگا۔" میں نے بھی تھوڑا مزا لینے کی لئے اس کو شہہ دے دی۔

 ٰنعیم کو بے اختیار ہنسی آگئ اور پھر وہ  کارڈ اس نے  اپنی جیب میں رکھ لیا۔

"تمہارا کام ہو جاے گا۔" اس نے ایسے اطمینان سے مجھ سے کہا جیسے اس کے لیئے یہ کوئ بات ہی نہ ہو۔

ویسا میرا دل بھی چاہ رہا تھا لہ اس کی بات پر اعتبار کرلوں، میرے پاس اس کے سوا اور کوئ چارہ بھی نہیں تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ گلی آگئ جس میں مکان تھا ، گیٹ کے سامنے ٹیکسی  رکوا کر ہم دونوں باہر آگئے۔

گیٹ کی بیل دبا کر ہم انتظار کرنے لگے

تھوڑی ہی دیر بعد اسی چوکیدار نے گیٹ سے سر باہر نکالا۔

"صاحب آگے کیا؟" میں نے پوچھا

"ہاں آگئے ہیں بلاتا ہوں"، مختصر سے جواب کے بعد اس نے دوبارہ  گیٹ بند کردیا۔میں اور نعیم مکان کا باہر سے جائزہ لینے لگے۔

اتنے میں ایک دراز قد کا آدمی باہر نکلا، ہماری طرف دیکھ کر اس نے ہاتھ بڑھادیا۔

"میرا نام کامران ہے۔"

"میں صفدر اور یہ نعیم ہیں میرے دوست۔ میں نے اپنا اور نعیم کا تعارف کرایا۔"

"کیایہ مکان آپ بیچنا چاہ رہے ہیں؟" ہاتھ ملاتے ہوے میں نے اس سے سوال کردیا۔

"ہاں، اندر آئے"

اس نے ہمیں اندر بلانے کے بعد گیٹ بند کردیا۔

کافی کشادہ مکان تھا، لان بہت خوبصورتی سے کٹاہواتھا،  اور لگتا تھا رنگ بھی ابھی ہوا ہے۔

اس نے لیونگ روم کا دروازہ کھول کر ہم سے اندر آنے کے لیے کہا۔

کافی کشادہ مکان تھا،تھوڑی ہی دیر میں  ہم نے پورا مکان دیکھ لیا۔

"بالکل مناسب ہے ہمارے لیے یہ مکان۔" میں نے کامران  کو اطمینان دلانے کے لیے کہہ دیا۔

"ویسے آپ بیچنا کیوں چاہ رہے ہیں"، میں نے روایتی انداز میں سوال کر ڈالا۔

"اجی جناب، کیا بتاؤں آپ کو، حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دنوں پہلے میرے  گھر میں آٹھ لاکھ کی چوری ہوئ اور دو دن پہلے میرے ڈرائیور کو کسی نے قتل کردیا ، یہاں پر اب جان و مال کچھ محفوظ نہیں، میرا یہاں پر ٍگزارہ نہیں ہو سکتا، یہ کتا ملک ہو گیا ہے۔"

"ہاں آج کل بہت احتیاط سے رہنا پڑتا ہے۔" میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائ۔

"ویسے کہاں جا رہے ہیں آپ؟" میں نے اس سے ایک اور سوال کر ڈالا۔

"میں نے اپنا بزنس  شکاگو  میں سیٹ کر لیا ہے۔"

ایک لمحہ کے لیے میں نے سوچا کہ اس کو بتا دوں کہ شکاگو میں تو اسی ڈالر پر وہ قتل ہو سکتا ہے، اور آٹھ  لاکھ میں تو اس کی بوٹیاں بھی نہ ملیں گی۔ لیکن پھر میں چپ رہا۔

میں نے دیکھا کہ نعیم کے چہرہ کا رنگ بدل چکا تھا اور وہ بڑی مشکل سے اپنا غصہ کنٹرول کر رہا تھا۔

اگر آپ واقعی دلچسپی رکھتے ہں تو  میں آپ کو بہت اچھی ڈیل دونگا،  میرا ایک ویر ہاوس بھی ہے، دونوں کی ڈیل بنائں، آپ یاد رکھیں گے زندگی بھر۔"  لگ رہا تھا وہ کچھ جلدی میں ہے۔

"یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔" دراصل میں اپنا بزنس پھیلا رہا ہوں اور ہو سکتا ہے مجھے ایک وير ہاؤس کی ضرورت پڑ جائے۔

"کیا بزنس ہے آپ کا؟"

"میں اسٹیل ایکسپورٹ کرتا ہوں امیریکا سے۔"

"اچھا، امیریکا میں کس جگہ پر؟"

"لاس اینجلس۔"

"یہ تو بڑی خوشی کی بات، پھر تو آپ سے ملاقات ہوگی امیریکا میں۔"

"ضرور۔اچھا آپ اپنے وئر ہاوس کا پتہ دیں، ایک نظر باہر سے دیکھ کر پھر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ دلچسپی ہے بھی یا نہیں۔"

"بالکل ٹھیک، یہ کہہ اس نے ایک کاغذپر وئر ہاؤس کا پتہ لکھ کر مجھے دے دیا۔"

"اچھا، اب اجازت دیں، کل یا پرسوں میں آپ کو جواب دونگا۔" یہ کہہ کر ہم باہر آگئے۔

میں نے دیکھا کہ سلیم ابھی تک غصہ میں تھا، "سن لیا تم نے، یہ کتا ملک ہے،جب تک اس ملک کو نچوڑتے رہے یہاں پر رہتے رہے،جب کچھ باقی نہیں بچا تو امیریکا کھسک لئے، بھری پڑی ہے یہ قوم ان جیسے دوغلوں سے۔اگر میرا بس چلے تو ان کا پجاما اتروا کر ان کو پلین میں بٹھوا دوں۔" غصہ سے نعیم کے منہ سے جھاگ سا نکل رہا تھا۔ اس کو میں پہلی دفعہ ایسے موڈ میں دیکھ رہا تھا۔

"ہاں واقعی یہ  بڑی بد نصیب قوم ہے۔" میں سر جھکائے اس کی باتیں سنتا رہا۔

"چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔"

ہم دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گئے  اور نعیم کو گھر چھوڑ کر میں نے عاصف سے کہا کہ مجھے بھی ہوٹل میں اتار دے۔مجھے اب نیند سی آرہی تھی، شاید یہ میرا جٹ لیگ تھا۔

 


                                                ۴

 

ٹیلیفون کی گھنٹی کی آواز پر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، مجھے یہاں پر کون کال کرےگا؟ گھبرا کر میں نے ٹیلیففون اٹھایا۔

"میں سمانہ بات کررہی ہوں"، دوسری طرف سےایک دھیمی سی  آواز آئ۔

"کون؟"،  میں اب سنبھل کر بیٹھ چکا تھا۔

نذیر کی بیوی سمانہ، آپ نے مجھے اپنا کارڈ دیا تھا"،

مجھے ذرا اطمینان سا ہوا۔

"کیسے کال کی؟"

"آپ نے کہا تھا کہ آپ میری مدد کرنا چاہتے ہیں"

"ہاں ہاں بولو"، میں اب پوری طرح جاگ چکا تھا۔

"مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کبیر بھائ کے بہت اچھے دوست تھے، اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ  نے پولیس سے  نذیر کے قاتلوں کے بارے میں پوچھا تھا"

"ہاں تو؟"

"مجھے ایک بات پر شک ہے، مجھے معلوم نہیں کہ میں کس پر بھروسہ کروں۔"

"ایسی کیا بات ہے؟"

"مجھے کچھ لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کروانی ہیں۔"

"کیا تمہارے کوئ رشتہ دار وغیرہ نہیں۔"

"میں ان پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔"

"یہ تو پولیس  کاکام ہے، تم نے پولیس کو بتایا نہیں۔"

"میں پولیس کو بیچ میں نہیں لانا چاہتی۔"

"میں تو یہاں اجنبی ہوں، میں تو  کسی کو نہیں جانتا۔"

"اگر آپ نہیں مددکرنا چاہتے تو ٹھیک ہے میں کسی  اور سے بات کرلونگی۔"

"نہیں،ٹھہرو،مجھے کچھ بتاؤ  کیا ہے۔" میں نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ فون رکھ دے۔

اس نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد کہنا شروع کیا،

"میں نے شاید آپ کو بتایا نہیں کہ کچھ دنوں سے  میری غیر موجودگی میں لوگ گھر میں آجاتے ہیں اور چیزیں الٹ پلٹ کرکے چلے جاتے ہیں،تین دفعہ ایسا ہو چکا ہے۔لیکن کل رات  کو ایک عجیب بات ہوئ ، ایک لڑکا گھر میں آیا، میرے خیال میں وہ مکینک کی دکان پر کام کرتا ہے جہاں کبھی کبھی نذیر گاڑی ٹھیک کرانے لے جاتے تھے  اور ایک ڈائری دے گیا، کہنے لگا یہ نذیر بھائ چھوڑ گئے تھے ہماری شاپ  پر، وہ یہ دے کے فوراً چلا گیا، مجھے معلوم ہے نذیر ڈائری نہیں رکھتے۔ اس میں کچھ پتے ہیں جسمیں ہمارے گھر کا بھی پتہ ہے، میرے خیال میں اسی ڈائری کے پیچھے ہیں وہ لوگ۔"

"کیا تم نے یہ بات  کسی اور کو بتائئ ہے؟"

"نہیں، کسی کو بھی نہیں"

"کہیں مل کر بات کر سکتی ہو؟"

اس بات سے دوسری طرف خاموشی چھا گئ تھی۔

"اچھا  مجھے بتاؤ کیا لکھا ہے اس میں؟" میں نے خاموشی کو توڑنے کے لئے کہہ دیا۔

"اگر آپ ملنا چاہتے ہیں تو کاظم مارکیٹ کی دکان نمبر ۱۷ پر  ملیں ،میں نو بجے وہاں  رہونگی،" یہہ کہہ کر اس نے ٹیلیفون رکھ دیا۔

میری نیند غائب ہو چکی تھی،  گھڑی دیکھی تو نو بجنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا، بے چینی سے  کمرے میں ٹہلنے لگا،یہ گھنٹہ گزارنا مجھ پر بہت دوبھر ہورہا تھا،پھر  سوچا کہ نہا کر ناشتہ وغیرہ  کرلوں اس طرح ٹائم بھی گزر جاے گا۔

ٹھیک نو بجے میں اس گلی میں تھا جس میں  دکان تھی، دیکھا تو  سمانہ مجھ سے پہلے ہی سے دکان پر موجود تھی، اس کی پیٹھ مجھ پر تھی اس لئے وہ مجھے  دیکھ نا سکی۔

میں نے دور کھڑے ہو کر سوچا کہ اس کی خریداری ختم ہونے کا انتظار کرلوں پھر  بات کرونگا۔

 دکاندار نے کاؤنٹر پر کافی چیزیں پھیلائ ہوی تھیں اور وہ کچھ تنگ سا لگ رہا تھا۔ میں نے سمانہ کی طرف غور سے دیکھا، سڈول بدن پر  ایک بہت جازب نظر چہرہ کے ساتھ وہ ایک عام سی لڑکی لگ رہی تھی، کوئ نہیں کہہ سکتا تھا کہ  دو  دن پہلے اس کے شوہر کی لاش کو بوری میں بند کیا گیا تھا۔ اس کی بچی اس کے ساتھ نہیں تھی، شاید ماں کے پاس چھوڑ کر آئ ہو، میں اب اس کی بچی کے بارے میں سوچنے لگا،  معلوم نہیں کتنی دفعہ اس نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا ہوگا، ہوسکتا ہے کسی نے اس کو بتایا بھی نہ ہو، یہ کیسی بدنسیبی ہے، ایک چھوٹی سی  بچی اپنے باپ کو اب کبھی نہیں دیکھ سکے گی،  وہ تو ہمیشہ کے لئے یہاں سے جا چکا ، اس کے واسطے ایک ایسا زخم چھوڑ گیا   جو سوکھنے کے بعد بھی  ناسور ہی  رہے گا، قدرت نے کیوں ایسا ظلم کیا اس کے ساتھ  اس کا جواب تو شاید قدرت کو بھی نہ معلوم ہو۔کیا یہاں کے لوگوں کو پتہ نہیں کتنا بھیانک جرم ہوا ہے،  میری نظریں پھر اس بوری کی لاش پر ٹہر گئیں، آنکھوں میں انہی جھلستی ہوئ لہروں کا تصور آنے لگا، جن کے بیچوں بیچ شیطانی چہرے قہقہے مار رہے تھے، مجھے ایسے لگا جیسے نذیر کی آنکھیں میری آنکھوں میں پیوست  ہورہی ہوں، میرے بدن پر  ایک جھرجھری سی آگئ، مجھے فوراً اپنے آپ کو سنبھالنا پڑا۔

اپنی توجہ ہٹانے کے لئے قریب آکر دکاندار سے مخاطب ہو گیا۔

"باندھ دو ان سامان  کو۔" میرے مخاطب ہونے پر سمانہ نے پلٹ کر  حیرت سے میری طرف دیکھا ، اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے اس کو انگلی اٹھا کر چپ ہونے کا اشارہ کر دیا۔

دکاندار کو شاید کچھ اطمینان سا آگیا تھا،  اس نے فوراً کاؤنٹر پر رکھا سامان  ایک بیگ میں رکھ کر رسید بنا دی۔

پیسے دے کر ہم دونوں گلی سے باہر آنے لگے تھے کہ اس نے کہنا شروع کردیا،

"مجھے کوئ چیز خریدنی نہیں تھی ، میں تو صرف اپنا وقت گزار رہی تھی، آپ کو یہ چیزیں خریدنی نہیں چاہئے تھیں۔"

"تم اس کی فکر نہ کرو یہ کوئ بڑی بات نہیں۔"میں نے اس کو دلاسہ دلاتے ہوے کہا۔

"مگر یہ پیسے میں  آپ کو دے دونگی۔"

"کیا ہم کہیں بیٹھ کر ناشتہ نہ کرلیں؟" میں نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوے سوال کیا۔

"اس سامنے والے رسٹورانٹ میں فیملی روم ہے وہاں بیٹھ سکتے ہیں۔" اس نے اشارے سے کہا۔

ہم دونوں تیز تیز چلتے ہوے رسٹورانٹ میں آگئے ،  مگراب  اس کے چہرے پر ایک گھبراہٹ سی چھا گئ تھی۔

ویٹر نے ہمیں ایک بوتھ میں بٹھادیا  اور بیٹھتے ہی وہ اپنے پرس کو ٹٹولنے لگی ،مجھے ایسے لگا جیسے وہ اپنے آپ کو مصروف کرنا چاہتی ہو ،یا شاید ایک اجنبی آدمی کے ساتھ بیٹھنا اس کو ناگوار گزر رہا ہو۔

"میں نے کہا نا کہ تم پیسوں کی فکر مت کرو، سمجھ لو کہ  کبیر کی طرف سے یہ تحفہ ہے۔" اس کو اطمینان دلانے کے لیئے مجھے دوبارہ کہنا پڑا۔

"تم کو نہیں معلوم کہ کبیر کا مجھ پر کتنا احسان ہے،  یہ تو ایک بہت معمولی سا تحفہ ہے، تمہیں شاید یاد نہ ہو، سترا سال پہلے  ہم الطاف صاحب کے گھر کرایے پر رہتے تھے  ، تمہارے گھر سے چار گھر چھوڑ کر۔ پھر میں امریکا چلا آیا، بھول بھلیوں میں ایسا کھویا کہ کچھ یاد نہیں رہا۔ بس اب

افسوس ہوتا ہے کہ کبیر کو کیوں نہیں بلالیا ، وہ میرا بچپن کا دوست تھا، پھر اس جیسا دوست کوئ نہ ملا'"

یہ سن کر اس کے چہرے پرتھوڑا سا  اطمینان آیا۔

اتنے میں ویٹر نے چائے اور پیسٹریز ہماری ٹیبل پر رکھ دی تھیں،

"آپ چائے میں چینی کتنا پیتے ہیں؟" اس نے پیالیوں میں چائے اندیلتے ہوے مجھ سا پوچھا۔

"ایک چمچہ۔" یہ کہہ کر میں غور سے اس کو بازووں کو دیکھنے لگا، اس کا یہ انداز مجھے بہت اچھا لگا تھا۔

تھوڑی دیر تک وہ یوں ہی پیالی میں چمچہ ہلاتی رہی تھی، ایسے لگ رہا یھا جیسے اس کا دماغ  کہیں  اور بھٹک رہا ہو۔

"تم اپنے بارے میں کچھ بتاو گی؟" میں نے اجنبیت کا احساس دور کرنے کے لئے اس سے پوچھ لیا۔

ایک تھوڑی سی خاموشی کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔

"تین سال پہلے میری شادی ہوی تھی۔ نذیر مجھے بہت چاہتے تھے، ہمیشہ میرا خیال رکھتے تھے، پھر سائمہ پیدا ہوئ، سائمہ تو ان کی جان تھی، روزانہ آنے کے بعد سب سے پہلا کام ان کا  سائمہ کو گلے لگانا ہوتا تھا۔ زندگی بہت پرسکون گزر رہی تھی اور  مجھے زیادہ کی خواہش بھی نہیں تھی، جو کچھ بھی نذیر نے دیا وہ میری توقع سے زیادہ تھا۔مجھے تو ابھی تک یہ احساس بھی نہیں ہورہا کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، ایسے لگتا ہے کہ وہ اب شام کو گھر پر آنے ہی والے ہونگے۔"

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئ اور عجیب نظروں سے خلا میں گھورنے لگی۔کتنے کرب سے وہ گزر رہی تھی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا۔

"تم کو اب ہمت سے کام لینا ہوگا، اپنے لئے بھی اور سائمہ کے لئے بھی، وقت ایک بڑا مرہم ہے اس کو تیزی سے گزرنے دو، تمہاری  تکلیف کا احساس کم ہو جاے  گا۔"

اس کے چہرے پر  ایک  ہلکی سی طنزیہ  مسکراہٹ آگئ،  شاید وہ میری  بے تکی منطق پر ہنسی تھی۔

"ہاں اب تو میرے لیئے وقت ہی وقت ہے۔" اس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

، تم کو نہیں معلوم تمہارے شوہر کے مرنے کا مجھے کتنا افسوس ہے،  جب میں یہاں رہتا تھا تب  ان گلیوں میں بڑا سکون ہوا کرتا تھا، اب پتا نہیں کیا ہو گیا ہے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔"

"ہاں یہ گلیاں اب خون کی پیاسی ہو گئ ہیں، یہاں پر اب صرف نفرتوں کے بیج اگتے ہیں۔لوگوں نے اپنے دلوں سے انسانیت نکال دی ہے، اب یہاں کوئ محبت نہیں کرتا۔ میں بھی اب خون کی پیاسی ہوگئ ہوں، میرے دل میں اب انتقام کے سوا  کچھ بھی نہیں۔"

"تمہیں ہر چیز کا فیصلہ ٹھنڈے دل سے کرنا ہو گا، تم ابھی جوان ہو، خوبصورت ہو، تمہیں کوئ اچھا سا شوہر مل جائے گا جو تمہارے دکھوں کو سمجھے گا۔"

"حیر یہ تو بہلانے کی باتیں ہیں، ہمارے یہاں کے مردوں کا اتنا اعلیٰ کردار نہیں کہ وہ ایک بیوہ کو قبول کر لیں اور وہ بھی جس کے ساتھ ایک بچی ہو۔ ابھی تو میں اس بارے میں سوچ نہیں رہی۔" اس کے الفاظ جزبات سے بالکل عاری تھے۔

"تم مجھے وہ ڈائری دکھا سکتی ہو؟" چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوے میں نے اس کی توجہ پلٹانے کی کوشش کی۔

اس نے پرس میں ڈھونڈ کر  ڈائری میرے ہاتھ میں تھمادی۔

میں نے ڈائری کے ورق پلٹنے شروع کردئے، کچھ صفحوں پر  ٹیلیفون نمبرتھے، پھر کچھ حساب کتاب جو کہ لاکھوں تک پہنچ رہا تھا،  اگر یہ ڈائری کسی کی لیجر تھی تو یقینًا بہت اہم  تھی۔

اچانک ایک صفحہ پر میری نظر رک گئ، دیکھا تو کچھ کیمیکل کمپاونڈ کی ایک لمبی چوڑی لسٹ تھی،  لسٹ کیا تھی میتھم فٹامین  بنانے کا پورا نسخہ تھا۔ میں نے تیزی سے ڈائرے کے ورقعے پلٹنے شروع کردئے، یہ ڈائری تو سر تا پا  مجرموں کی ایک فہرست تھی، مگر ان کا سرغنہ کون تھا اس کا پتہ تو دو چار کو پکڑنے کے بعد آسانی سے  معلوم ہو سکتا تھا، پھر اچانک میرے زہن میں خیال آیا، میں نے فوراً جیب  سے کامران کا دیا ہوا کاغذنکالا،  ڈائری کے پہلے ہی صفح کا پتہ کامران کا وئر ہاؤس نکلا، اپنے ہاتھ میں اتنا بڑا ثبوت پا کرمیرے ہاتھ پاوں پھول چکے تھے۔ میں فوراً کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، ادھر سمانہ کا چہرہ بھی فق  تھا،۔

"تمہارا شوہر تو بے چارہ بے قصور مارا گیا۔تم اٹھو اور سیدھا اپنی ماں کے گھرجانا ،میں آج ہی نذیر کے قاتلوں کو پکڑواتا ہوں۔"میں نے سمانہ کو فوراً اٹھنے کا کہا، اور  وہ اپنا پرس سنبھال کر کھڑی ہوگئ۔ اس کو شاید پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ معاملے کی کڑی کس طرح ملی، مگر میرے پاس وقت نہیں تھا کہ اس کو سمجھاتا، میں نے صرف اتنا کہا کہ شام کو مجھے ہوٹل پر فون کرنا اور یہ کہہ کر میں بوتھ سے باہر  آکیا۔مجھے معلوم تھا کہ کامران نے ملک چھوڑنے کا پلان بنایا ہوا ہے اس لئے اس کو جلدی پکڑوانا ضروری تھا۔ سمانہ بھی میرے پیچھے پیچھے باہر آگئ۔میں نے اس کو گھر جانے کا کہا اور خود کاؤنٹر پر آگیا۔سمانہ کو  درواذے سے باہر نکلنے سے پہلے ایک دفعہ پھرمیں نے   ہدایت کی کہ وہ سیدھا اپنی ماں کے پاس جاے، اس نے بے اختیار ہاں کہا اور درواذے سے نکل گئ۔

کاؤنٹر پر آکر میں نے مینیجر سے درخواست کی کہ مجھے ایک فون کرنے دیں۔

"آپ ادھر آکر کر لیں۔" اس نے کاؤنٹر کے دوسری طرف رکھے ہؤے فون کی طرف اشارہ کرتے ہؤے کہا اورپھراپنے اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔

جیب سے نعیم کا کارڈ نکال کر میں نے فون اٹھایا اور نعیم کو  ڈائل کرنا شروع کر دیا۔

تیسری گھنٹی پر اپنے مخصوص  حاکمانہ لہجے میں نعیم کی  آواز آئ۔

"انسپکٹر نعیم"

"نعیم ،اگرتمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی چاہیے تو مجھ سے فوراً کاظم مارکیٹ کے ساتھ لگے ہوئے رسٹورانٹ میں آکر ملو۔میرے پاس ایک ایسی چیز ہاتھ آگئ ہے جس کو دیکھ کر تم دنگ رہ جاؤ گے۔" میرے الفاظ میں  جوش صاف ظاہر تھا۔

"ایسی کیا چیز ہے کہ فوراً بلا رہے ہو؟" اس کو شاید یقین نہیں آ رہا تھا۔

"تمہیں پتہ ہےکامران کا ڈرگ ڈیلینگ کا کروبار ہے۔"

"تمہیں کیسے پتہ؟"

"میرے پاس اس کی ڈائری ہے جس میں اس کا سارا حساب کتاب ہے،کامران سمجھ رہا تھا کہ نذیر نے یہ ڈائری چرالی ہے اس لئی اسے مروا دیا، اگر تمھیں کامران کو پکڑنا ہے تو مجھ سے آکر ملو۔"

"اچھا،  وہیں ٹھہرو مجھے دس منٹ  دو۔" یہ کہہ کر نعیم نے فون رکھ دیا۔

مینیجر کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں واپس ٹیبل پر آگیا تھا، پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نا کامران کو اس کے ويئر ہاوس بلا جائے،  رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، یہ سوچ کر میں  دوبارہ کاؤنٹر پرآگیا اور  مینیجر سے درخواست کی کہ مجھے ایک اور فون کرنے دے۔

مینیجر نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر ہاتھ کے  اشارے سے مجھے اجازت دے دی۔ اس وقت  تک میرے جسم میں  ایک ہیجانی سی کیفیت  طاری ہو چکی تھی، میں نے فون اٹھا کر کامران کے نمبر ڈائل کرنا شروع کردئے۔ دوسری طرف گھنٹی بجتی رہی اور ہر گھنٹی پر مجھے ایسے لگ رہا تھا  جیسے میرے سر پر ایک ہتوڑا پڑ گیا ہو۔

چھ سات گھنٹیوں کے بعد فون کا ریسیور اٹھا۔دوسری طرف سے کامران کی ہیلو سن میری کچھ جان میں جان آئ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی سو کر اٹھا ہو۔

"کامران صاحب، میں صفدر بات کر رہا ہوں اور میرے پاس آپ کے مکان کے لیے ایک آفر ہے"

"یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے، آیں معاملہ طے کرتے ہیں۔" کامران کی آواز میں خوشی اور بیتابیت صاف ظاہر ہو رہی تھی۔

"میں ایک اور بات یہ سوچ رہا تھا کہ آپ کا جو ویئر ہاؤس ہے لگے ہاتھوں اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔" اس بات نے کامران کی بیتابی اور بڑھادی تھی۔

"آکر مل لیں مجھ سے وئیر ہاوس میں۔ آپ کے پاس پتہ تو ہے۔" وہ فوراً تیار ہو گیا تھا۔

"مجھے ایک آدھا  گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔"

"تو پھر آدھ گھنٹے بعد ملتے ہیں۔" یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔

مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے کوئ بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو۔ اور خون ایسے جوش کھا رہا تھا جیسے کسی پسندیدہ فلم میں ہیرونے  ولین کی پٹائ کر دی۔ کہانی کا یہ منطقی انجام بالکل ایسے ہی لگا جیسے ایک خوبصورت جاسوسی ناول اپنے اختتام پر  ہو اور ہیرو کو اس کا ایوارڈ ملنے والا ہو۔ مسکراہٹ کو میں چھپا نہیں سک رہا تھا ۔ میں نے کاؤنٹر پر پیسے ادا کیے اور نعیم کا انتظار کرنے باہر آگیا۔

فٹ پاتھ پر گرمی کی تپش بڑھ چکی تھی، مگر انتظار کی بے چینی میں مجھے کچھ حوش نہیں تھا۔اپنے آپ کو کامیابی کے اتنا قریب دیکھ کر میں کچھ بدحواس  بھی ہو گیا تھا۔ ٹہل کر کبھی گلی کے ایک کونے میں دیکھتا اور کبھی دوسرے پر۔یہ پولیں والے جب ضرورت پڑتی ہے تو نظر نہیں آتے  ویسے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ مجھے اب نعیم پر غصہ سا آنے لگا تھا، حالانکہ کچھ ہی منٹ گزرے ہونگے لیکن ایسے لگ رہاتھا جیسے صدیاں بیت گئیں۔ اچانک میں نے محصوص کیا کہ گلی کے ایک کونے میں  دو لڑکے کھڑے ہیں، ان میں سے ایک کو  شايد کہیں دیکھا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ اگلے دن   گلی میں مجھے اسی کا سامنا تھا۔ کیا یہ سمانہ کا پیچھا کرتے ہوے یہاں تک آئے ہیں؟ خطرے کی بو سونگھ کر میں چوکنا ہوگیا۔ شاید اب پھر ایک  دوڑ لگانی پڑ  جائے، لیکن مجھے یقین تھا کہ نعیم اب آنے ہی والا ہوگا اسی لیئے  سوچا کہ بہتر  ہے  یہیں کھڑے ہو کر نعیم کا انتظار کر لوں۔ میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی اور ہر لمحہ ایسے لگ رہا تھا صدیاں گزر رہی ہوں، مجھے نہیں معلوم تھا کہ نعیم کس طرف سے آئے گا، میں کبھی دائیں طرف دیکھتا اور کبھی بائیں طرف طرف۔ اتنے میں  دیکھا کہ ایک تیز رفتار  ٹیکسی گلی کے دائیں  کونے سے نکلی ہے ۔میں اپنے انتظار کی گھڑیاں گننے میں مصروف تھا ۔ اچانک  میرے سامنے سے گزرتے ہوئے ٹیکسی نے بریک لگا دیے۔ خطرے کو بھانپ کر میں نے گلی کی دوسری طرف بھاگنا شروع کردیا، یہ شاید ایک اور بڑی غلطی تھی ، دوسرے کونے سے دو اور لڑکے نکلے اور  میری طرف لپکے۔ میں اب  ہر  طرف سے گھر چکا تھا لیکن کوشش تو بہر حال  کرنی تھی،پیشتر اس کے کہ وہ مجھے پکڑتے  میرا  مکا ایک کے منہ پر ڈھیر ہو چکا تھا، لیکن آخر کار کو انہوں نے مجھے بے بس کر ہی لیا۔اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ایک سخت سی چیز میرے سر پر پڑی اور ایسے لگا جیسے دماغ کے پرخچے اڑ گئے  ہوں۔ غش کھا کر میں زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ دو نے میرے ہاتھ پکڑے اور ایک نے ٹانگیں اور مجھے اٹھاتے ہوے ٹیکسی کی طرف لانے لگے۔ پتہ نہیں وہ مجھے کہاں لے جا کر مارنا چاہ رہے تھے۔

 اتنے میں سائرن کی آواز آنے لگی، یقیناً یہ پولیس  ہوگی لیکن غشی اتنی طاری تھی کہ میں کچھ کر نہیں سک رہا تھا ۔

"جلدی کرو۔" ان میں سے ایک چیخا، وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ یہ پولیس کی گاڑی ہے ، اب انہوں نے  دوڑنا شروع  کردیا۔ میرے حواس  اب تھوڑے سے واپس آچکے تھے، موقع دیکھ کر میں نے بھی اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش شروع کردی۔اسی کشمکش میں ایک کے ہاتھ سے اپنے آپ کو چھڑوالیا لیکن اب مجھے وہ زمین پر گھسیٹتے ہوے لے کر جانے لگے۔سائرن کی آواز قریب آرہی تھی، اچانک خطرہ دیکھ کر سب نے مجھے زمین پر پٹخا اور ٹیکسی کی طرف بھاگ کھڑے ہوے۔ اپنی جان بچتی دیکھ کراب یہی پولیں مجھے فرشتہ لگ رہی تھی۔

"پٹاخ!" اچانک ایک دھماکے کی آواز آئ،ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے شاید کسی نے گولی چلا دی تھی۔

آناً فاناً یہ سب کچھ ہوگیا، مجھے ایسے لگا جیسے ایک جلتی ہوئ سلاخ  میرے بازو میں پیوست ہوگئی ہو اور دھنستی چلی جا رہی ہو۔ مجھے معلوم نہیں کہ گولی جسم کے کں حصہ پر جا کر رکی،ایسے لگا جیسے کسی نے مجھے زمیں پر پٹخ کے مارا ہو،  ایک شدت کی ٹیس تھی جس نے دماغ ماؤف کر دیا تھا،  یہ تکلیف میری برداشت سے باہر تھی۔میں شاید تھوڑی دیر کے لئے بے ہوش ہو گیا تھا۔ہوش آیا تو  صرف اتنا دیکھا کہ  نعیم نے ایک ہاتھ سے میرا بازو تھاما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے موبل فون پر ایمبلنس بلانے کی باتیں کر رہا تھا۔

"صفدر تم  ہمت  سے کام لو  ابھی ایمبلنس آتی ہے۔" اس نے میرے ہاتھ کو سختی سے دباتے  ہوےکہا۔میرا بازو سن ہوچکا  تھا لیکن میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ میرے حواس قائم رہیں۔  مجھے ایسے لگا جیسے موت سے لڑنے کے لئے میرا پورا جسم ایک ہوگیا ہو۔پتہ نہیں کتنی دفعہ غشی کے عالم سے باہر آیا تھا کہ ایک اور سائرن کی آواز آنے لگی، دیکھا تو ایمبولنس ہی تھی۔

" جلدی کیوں نہیں کرتے یہ لوگ۔" تکلیف سے برا حال ہو نے لگا تھا۔ اتنے میں دو لوگ ایمبولنس سے نکلے اور قریب آکر سب کو میرے اطراف سے ہٹانا شروع کردیا۔ میری نبض اور دل کی دھڑکن دیکھ کر ان میں سے ایک نے مجھے انجکشن دے دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے ایسے لگا  جیسے میں ایک گہری نیند سو گیا ہوں۔

یہ شاید گاڑی کے جھٹکے تھے جن سے مجھے کچھ حوش آگیا تھا۔  دیکھا تو  ایمبولنس کی اسٹریچر پر  پڑا ہوں ، میرے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئ تھی اور سرہانے نعیم بیٹھا ہوا تھا۔

مجھے جاکتا ہوا دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ تھی۔

"بس اب ہاسپٹل آنے ہی والا ہے۔" نعیم نے دونوں ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو دبایا ہوا تھا۔

نعیم سے بات کرنے کے لئے  میں نے آواز نکالنے کی کوشش کی لیکن میرے ہونٹ ایک ہلکی سی جنبش دے کر رہ گئے۔ نعیم سمجھ گیا کہ میں کچھ کہنا چاہ رہا ہوں۔ اس نے کان میرے نزدیک کر دئے۔ میرے منہ سے بڑی مشکل سے یہ آواز نکل سکی کہ میری جیب سے ڈائری نکال لو۔

نعیم نے احتیاط  سے ڈائری نکالی اور اس کے ورقوں کو پلٹنے لگا۔ اچانک اس نے اپنا موبل فون اٹھایا اور نمبر ملا کر ہدایت دینا شروع کردیں۔ اس کے کوڈ ورڈ تو سمجھ نہیں آئے لیکن مجھے اندازہ ہو کیا کہ یہ سب گرفتاری کے احکامات تھے۔ اپنی کامیابی کو مکمل ہوتا دیکھ کر میرا خوشی سے دل اچھل رہا تھا کہ اچانک ہاتھ نے ایک ٹیس ماری اور میں پھر بے ہوش ہونے لگا۔

"ایمبولنس کو سول ہاسپٹل لے کر چلو!" مجھے  بے ہوش ہوتا دیکھ کر نعیم  نے ڈرائیور کو ایک نیی ہدایت دے دی۔

"مگر صاحب سول ہاسپٹل تو دور ہے" اس  بات  پر ڈرائور زرا بوکھلا سا گیا تھا۔

"میں کہہ رہا ہوں سول ہاسپٹل  چلو۔" نعیم نے دوبارہ اپنی بات پر زور دے کر کہا۔

"یہ میرےساتھ کیا  مذاق کر رہا ہے۔میں تکلیف سے مر رہا ہوں اور اس کو اپنے ہاسپٹل کی لگی ہے۔" میرے ہونٹوں کو جنبش تو ہوئ مگر میں کچھ بول نا سکا۔شاید میں دوبارہ بے ہوش ہو چکا تھا۔

معلوم نہیں کتنی دیر بعد آنکھ کھلی۔ ایمبولنس مجھے شاید ہاسپٹل لے ہی آئ تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میرے جسم پر ہر طرف پروب لگی تھیں اور ایک اسکوپ پر سے دل کی دھڑکن کی بیپ آرہی تھی۔ یہ تو ہسپتال کا بیڈ ہے، میں نے اپنے آپ سے سوچا اور  اب  میری تکلیف کی شدت کم ہو چکی تھی، ہو سکتا ہے  کسی دوا کا اثر ہو۔ اپنے آپ کو ہاسپٹل کے بیڈ پر پا کر کچھ اطمینان تو آرہا تھا۔ میرے دائں ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی اور بستر کے اوپر ایک لیمپ تھا جسکی دودھیا سی روشنی نے کمرے کی ہر چیز کو بے رنگ کر دیا تھا۔میں نے اپنے آپ کو بائں طرف پلٹانے کی کوشش کی تھی کہ میری چیخ  نکل گئ، لگ رہا تھا جیسے ہزاروں کیلیں میرے ہاتھ میں ٹھونک دی گئ ہوں۔

پھر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اپنا ہاتھ میرے سر کے نیچے رکھ کرسر کو اٹھایا ہو اور آہستگی سے تکیہ کے سہارے کو ٹھیک کیا ہو۔ایک لمحہ کے لئے ایک مست سی خوشبو کا جھونکا تھا،کوئ بدن میرے جسم سے اتنا قریب تھا کہ میں شکل نہیں دیکھ سک رہا تھا۔اگر یہ لمحہ صدیوں پر بھی محیط ہوتا تو بھی کم ہوتا۔تکیہ کا دباؤ ٹھیک ہونے کے بعدمیں نے نظریں اٹھائں، دیکھنے کے لئے کہ کون ہے۔پھر  مجھے ایسے لگا جیسے میرا خون منجمد ہو گیا ہو، جس چہرہ کو دیکھنے کے لئے میں نے انتظار کی صدیاں گزاری تھیں وہ چہرہ میرے سامنے موجود تھا۔

"صوبی تم!" میرے منہ سےبس اتنا سا نکل سکا۔

"ہاں یہ میں ہوں۔" اس نے دھیمی آواز  میں بستر کے سرحانے سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

 اپنا سر اونچا کرکے میں  اس کے چہرہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا،  اس نے بھی  اپنا چہرہ  ہٹایا نہیں، شاید وہ میری آنکھوں کو جی بھر کے تسکین دینا چاہتی ہو۔    یہی وہ چہرہ تھا  جس  کو میں نے اپنا کل سرمایہ سمجھا تھا۔میرے تصور میں ہر وہ منظر  آنے لگا  جب یہ میرے سامنے ہوا کرتا تھا۔میری نظروں سے ہٹنے کے باوجود بھی میری نظروں میں ہوتا تھا۔ میں نے کیوں نا اس چہرے کو ہمیشہ کے لئے تھام لیا، اپنے اوپر کیوں اتنا ظلم کیا، مجھے بھی حق تھا اپنے واسطے کچھ خوشیاں چننے کا۔ کتنی بے کار تھی میری زندکی اس کے بغیر۔ مگر اب یہ سوچنا تو فضول ہے، اس وقت کی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرے سامنے ہے۔ اب یہ مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوگی۔یہ سوچ کر میں نے بستر سے تھوڑا اٹھنے کی کوشش کی۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری ہر تکلیف دور ہو گئ ہو، مجھے اٹھتا ہوا دیکھ کر  صوبی نے مجھے سہارےسے بستر پر بٹھا دیا۔

"شکر ہے خدا کا کہ تم کو ہوش آگیا۔" اس نے میری توجہ ہٹوانے کے لئے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ وہ میری طرف حیران کن نظروں سے دیکھ رہی تھی ، شاید اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اٹھ سکونگا۔

"میں کب سے یہاں ہوں ؟" میں نے بستر پر بیٹھ کر چاروں طرف نظریں دوڑائں

"آٹھ گھنٹے ہو چکے"

"نعیم کہاں ہے؟"

"وہ  سارا وقت یہیں تھے، بس ابھی گئے ہیں باہر، کہہ رہےتھے  بہت خیال رکھنا تمہارا۔" وہ میری طرف بغور دیکھتی رہی۔

میں نے بھی  اپنی نگاہیں پھر اس پر مرکوز کردیں۔میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے خدوخال میں کوئ فرق نہیں آیا تھا۔

"معلوم ہے تم بالکل بھی نہیں بدلی ہو۔"

"اچھا، لوگ کہہ رہے تھے کہ  میں بہتر ہو رہی ہوں" اس کے چہرے پر اب شوخی سی ابھر آئ تھی۔

"نہیں، نہیں، میرا مطلب عادتوں سے نہیں،  میں تو تمہارے بالوں کے جوڑے کے انداز کا کہہ رہا تھا، اور یہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا۔" میں نےتھوڑا مزا لینے کے لیے  اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔

یہ سن کر  فوراً اس نے ہاتھ کمر سے ہٹائے اور کرسی پر بیٹھ گئ، شاید اس کو اپنی عادت کا احساس ہو گیا تھا۔

اس نے پہلے تو ہاتھ باندھےپھر ایک ہاتھ کوٹھوڑی پر رکھا۔پھر کہنے لگی "اور کچھ؟" اس کی شوخی پوری طرح کھل چکی تھی۔

"مزید وضاحت کروں؟یہ تمہاری آنکھوں کی چمک، یہ تمہارے ہونٹوں کی لالی ، یہ تمہارے  گلابی رخساراور یہ تمہاری  گھنیری  زلفیں،  کیا پوری غزل لکھ کر دینی پڑے گی مجھ کو؟ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔"

"کچھ اندازہ بھی ہے کتنا عرصہ گزر چکا؟ چھوڑو ان باتوں کو، تمہارے جسم پر بہت گہرا زخم ہے بہتر یہ ہے تم لیٹ جاؤ" اس نے بات پلٹنے کی کوشش کی۔

"ارے تم کو کیا معلوم اب مجھے کوئ تکلیف نہیں" اور واقعی مجھے اب درد کا کوئ احساس نہیں تھا۔

"مجھے یہیں بیٹھے رہنے دو، زرا جی بھر کے دیکھ لینے دو"  میری التجا والے انداز کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سی آگئ تھی،پھر وہ کسی سوچ میں گم ہوگئ، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ میری موجودگی سے بے نیاز ہوگئ ہو۔وقت مجھے پھر اس موڑ پر لے آیا تھا جب  وہ اسی طرح میرے سامنے ہوتی تھی اور میرے تخیل میں اپنے آپ کو مجھے سونپ دیتی تھی۔

"تمہیں معلوم ہے میں یہاں کیوں موجود ہوں؟" میں نے خاموشی کو توڑتے ہوے اس کو مخاطب کیا۔

"نہیں" یہ کہہ کر  اس نے اپنا چہرہ میری طرف پلٹا لیا۔

"صرف تم کو ایک دفعہ اور  دیکھنے کے لئے۔اور یہ کہنے کے لئے کہ میں نے تم کو ٹوٹ کر چاہا تھا۔ اور یہ بتانے کے لئے کہ میری محبت  کی کوئ انتہا نہیں تھی۔"

"اگر اتنی ہی محبت تھی تو وعدہ کیوں نہیں کیا تھا؟"

"مجھے تمہیں ایک مکمل زندگی دینی تھی، اس سے کم مجھے گوارہ نہیں تھا۔" یہ سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے  خاموش ہوگئ۔

میرے پاس الفاظ نہیں تھے کہ اس کو یقین دلاتا۔ مگر پھر بھی مجھے اس کو بتا نا تھا۔

"تمہیں شاید  یقین نہ ہو صرف تمہاری خاطر آیا ہوں میں یہاں۔مجھے یقین تھا کہ تمہیں دوبارہ ضرور پاؤنگا اور  آج تم میرے سامنے ہو  یہ میری زندگی کی تکمیل ہے۔ بس ایک التجا ہے میری۔"

"وہ کیا؟" اس نے حیران ہو کر مجھ سے پوچھا۔

"کیا میرے ساتھ دو قدم چلو گی ہاتھ تھام کر؟ اس زندگی کی راہوں میں تمہارے سوا کسی اور کا نہیں سوچا میں نے۔"

اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے پوری کائنات سمٹ کر ان ہاتھوں میں آگئ ہو، آگے بڑھ کر میں نے اس کا ہاتھ تھام  کر اپنے قریب کرلیا، میں نے دیکھا کہ اس کے چہرہ پر دو آنسو ٹپک کر آگئے تھے۔  مجھے یوں لگا جیسے وہ منزل آگئ ہو جس کا مجھے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ کاش کہ یہ لمحہ ٹہر جائے  ، اب مجھے کسی اور  چیز کی خواہش نہیں تھی۔ وقت میرے لئے ساکت ہو  جائے اور میں یوں ہی اس کا ہاتھ تھامے رہوں  اس کے سوا مجھے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ان ہاتھوں کو تھام کر جتنا عرصہ گزرتا رہا میں اس کی تصویر کے خاکوں کو گہرا کرتا رہا،  معلوم نہیں کتنا عرصہ گزرا،پھر مجھے یوں  لگا جیسے  ہر چیز  کی جنبش ختم سی ہونے لگی ہو، ایسے  لگا جیسے ایک اندھیرا سا چھانے لگا ہو۔میں حیران تھا کہ کیا ہو رہا یہ میرے ساتھ ، لگتا تھا  کسی چیز پرمجھے  قابو نہیں رہا، میں جس جگہ بھی آنکھیں دوڑاتا صرف ایک ہی منظر تھا، میں اب کسی چیز کو چھو نہیں سک رہا تھا، یوں لگ رہا تھاجیسے  ہر چیز پتھرا سی  گئ تھی۔

  کہ اتنے میں ایک آواز گونجی،

"ہم تمہیں لینے آے ہیں"

  میں نے کھبرا کر پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ ایک عجیب سی مخلوق قطار در قطار تھی۔

ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر پھر  کہا، "تمہارے حصے کا وقت اب ختم ہو چکا، ہم تمہیں لینے آے ہیں"

"کیا مذاق ہو رہا ہے میرے ساتھ" میری آواز حلق میں اٹک کر رہ گئ تھی۔

"تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا ہم تمہیں لینے آئے ہیں"

"مگر، مگر ، اب تو مجھے ایک نیی زندگی شروع کر نی تھی، کیوں میری خوشیوں کو اس طرح توڑ رہے ہو؟" میں نے  بے بسی کے عالم میں چاروں طرف دیکھ کر کہا، مگر ہر طرف ایک بھیانک سی خاموشی تھی۔

"ہم نے کہا نا تمہارے حصے کا وقت اب ختم ہوچکا، تمہارا اس دنیا سے اب کوئ واسطہ نہیں رہا۔ تمہیں اب یہاں سے اس جگہ  جانا ہوگاجہاں سے کبھی کوئ لوٹ کر نہیں آیا"

پھر ایک خاموشی سی چھا گئ ،  میں نے دیکھا کہ یہ واقعی سچ کہہ رہے ہیں، میرا ناطہ اب  اس دنیا سے ٹوٹ چکا تھا، نہ میں کچھ دیکھ سکتا تھا اور نہ کچھ محسوس کر سکتا تھا،  تقدیر کی گردش کا یہ کھیل کم سے کم میرے لیے تو ختم ہو جکا تھا۔مجھے تو اب  ان کے ساتھ ہی جانا ہوگا، یہاں رہ کر اب میں کیا کرونگا، یہ سوچ کر میں نے حامی بھرلی، "چلو میں تیار ہوں۔"

پھر مجھے ایسے لگا جیسے ہر چیز مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے، میں سمجھ گیا کہ  اب میرے اس سفر کا آغاز ہوگیا ہے جس پر کبھی نہ کبھی تو مجھے آنا ہی تھا، بس فرق یہ تھا کہ میں اپنے دوستوں کو  کو بتا نہیں سکھ رہا تھا کہ دوستو  دیکھو ، میں تمہیں   خدا حافظ  کہنا چاہتا ہوں، میری نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں ، مجھے معاف کر دینا اگر میں کچھ دے نا سکا، مگر یہ بھی تو دیکھ لو کہ میں کچھ لے کر بھی تو نہیں جا رہا۔